ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
اس کا انجام قریب ہے اور وہ ہے مکمل معذوری۔
مگر اس نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا نہ اس بات پر راضی ہوئی کہ اسے معذور سمجھا جائے اور معاشرے میں ناکارہ رہ جائے۔
سبق میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی کہانی کو خود نئے سرے سے لکھے گی۔
نورا النشاری، تبوک شہر کی وہ لڑکی جسے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ کبھی نہیں چل سکے گی، آج اپنے خوابوں کی طرف اعتماد سے قدم بڑھا رہی ہے۔
وہ اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیاحوں کی رہنمائی کرتی ہے اور دوسرے ہاتھ میں ان اسناد اور کامیابیوں کو تھامے ہوئے ہے جو اس نے تمام تر حالات کے باوجود حاصل کی ہیں۔
’میں اس بات پر راضی ہوئی کہ مجھے معذور سمجھا جائے‘ ( فوٹو: سبق)
نورا کہتی ہیں:
میں بعض ڈاکٹروں سے یہ جملہ سنتی تھی کہ ’تمہیں کچھ نہیں ہے‘ اور میں مسکرا دیتی تھی حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ’مجھے واقعی کچھ ہے‘۔
لیکن میری مشکل درد میں نہیں تھی بلکہ درد سے نمٹنے کے انداز میں تھی۔
میں علاج کی تلاش میں مختلف اسپتالوں میں گئی، تفصیلی معائنے کروائے اور میرے پٹھے کی بایوپسی بھی کی گئی۔
جب بھی محسوس ہوتا کہ راستہ تنگ ہو رہا ہے، میں اپنی اہداف کی ڈائری کھولتی اور لکھتی ’مجھے میری ٹانگ نہیں روکتی، میرا خیال مجھے روکتا ہے‘۔
وہ کہتی ہیں:
میں نے 2017 سے چیلنج کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا اور سیاحت کے شعبے میں مجھے زندگی کی ایک ’کھڑکی‘ نظر آئی۔
میں نے پڑھنا اور تربیت لینا شروع کیا، رہنمائی کے کورسز میں داخلہ لیا اور وزیٹرز سے پہلے سیاحتی مقامات کا دورہ کرتی تھی۔
تاریخی مقامات کے سامنے کھڑی ہو کر میں خود سے ان کی کہانیاں دہراتی، جیسے میں اپنی ہی کہانی سنا رہی ہوں۔
مجھے لگا کہ یہ زمین پیغام سے دھڑک رہی ہے اور مجھے اس کی آواز بننا ہے۔ اس پیغام کو اس طرح پہنچانا ہے جیسے وہ ہونا چاہیے، یقین سے بھرا ہوا، نہ کہ مایوسی سے۔
’میں اپنی اہداف کی ڈائری کھولتی اور لکھتی ’مجھے میری ٹانگ نہیں روکتی، میرا خیال مجھے روکتا ہے‘ ( فوٹو: سبق)
نورا نے بتایا:
اس جذبے کی انتہا پر، میں نے عازمین حج کی خدمت میں حصہ لیا۔ میں نے حجاج اور عمرہ زائرین کی رہنمائی میں اپنا کردار ادا کیا، یہاں تک کہ میں نے سب سے زیادہ رضاکارانہ گھنٹے مکمل کئے۔
خدمات کے اعتراف کے طور پر تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان سے اعزاز حاصل ہوا جو میرے لیے ایک گہرا اور یاد گار لمحہ تھا۔
مجھے ان سے مصافحہ کرنے کا شرف ملا اور ان کے الفاظ میرے لیے ایک ایسا ذریعہ تحریک بنے جسے میں کبھی نہیں بھولوں گی۔ ان کی حوصلہ افزائی نے مجھے تقویت بخشی اور یہ یقین دیا کہ میرا کام محض ایک وقتی کوشش نہیں بلکہ قابل فخر اثر ہے۔
نورا نے مزید کہا:
میرا مقصد صرف فیلڈ ورک کرنا نہیں تھا بلکہ میں نے تمام تر چیلنجز، نقل و حرکت اور اپنی صحت کی حالت کے باوجود، بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔
درد امید پیدا کرتا ہے اور امید ہی کسی بھی کامیابی کا اصل ایندھن ہے۔
طالب علمی کے دن تھکا دینے والے تھے لیکن ان دنوں نے میرے اندر یہ احساس جگایا کہ میں ہر رکاوٹ سے زیادہ مضبوط ہوں۔
آج نورا النشاری روانی سے عربی اور انگریزی بولتی ہیں۔ وہ خود سیاحوں اور زائرین کے ساتھ ہوتی ہیں، انہیں رہنمائی دیتی ہیں، چیزیں سمجھاتی ہیں، پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ ان کی قیادت کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ جب انسان کی خواہشِ زندگی مضبوط ہو تو وہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتا ہے۔
’زندگی اور موقع کسی کا انتظار نہیں کرتے، میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی انتظار نہیں کروں گی‘ ( فوٹو: سبق)
نورا کہتی ہیں:
زندگی اور موقع کسی کا انتظار نہیں کرتے اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی انتظار نہیں کروں گی۔
میں آگے بڑھتی ہوں، چیلنج لیتی ہوں، کامیابیاں حاصل کرتی ہوں اور ابھی راستہ بہت طویل ہے۔