پہلا سعودی ڈرائیونگ لائسنس
ابراہیم محمدباداو¿د ۔ المدینہ
سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا مسئلہ بڑا سماجی معاملہ تھا۔ بعض لوگ جان بوجھ کر وقت بے وقت خواتین کیلئے ڈرائیونگ کا مسئلہ اچھالتے رہتے تھے۔ اندرون و بیرون مملکت مجالس کی گفت و شنید کا دلچسپ موضوع بنا ہوا تھا۔سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے خواتین کو ڈرائیونگ لائسنس کا اجراءبند کررکھاتھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا کوئی قانون نہیں تھا۔ اس صورتحال نے مسئلہ کو گتھی کی شکل دیدی تھی۔
ستمبر 2017ءکے دوران خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے خواتین کی ڈرائیونگ کا تاریخی فرمان جاری کرکے یہ بحث سمیٹ دی ۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ ٹریفک قانون اور اسکا لائحہ عمل مرد و خواتین سب پر یکساں انداز میں نافذ کیا جائے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءسمیت ہر حکم مرد و زن دونوں پر لاگو کیا جائے۔ عمل درآمد 10شوال 1439ھ سے مقررہ شرعی و قانونی ضوابط کے مطابق کیا جائے۔ شاہی فرمان پر عمل درآمد کیلئے مطلوب تدابیر کا جائزہ لینے کیلئے متعلقہ وزارتوں کی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ اس حوالے سے مملکت کے مختلف علاقوں میں لیڈیز ڈرائیونگ اسکول قائم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی۔
اس تاریخی فیصلے نے معاشرے میں خواتین کے رتبے کے استحکام سے متعلق قیادتِ راشدہ کے عزم و حوصلے کو اجاگر کیا۔
حالیہ ایام میں سعودی محکمہ ٹریفک نے سعودی عرب میں منظور شدہ خارجی ڈرائیونگ لائسنس جمع کرنے والی خواتین کو سعودی ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءکا سلسلہ شروع کیا ہے۔ 10شوال قریب آچکا ہے۔ اس تاریخ کے بعدتمام خواتین، خواہ وہ سعودی ہوں یا غیر ملکی مملکت بھر میں گاڑی چلانے کی مجاز ہوجائیں گی۔ محکمہ ٹریفک نے خارجی لائسنس پیش کرکے سعودی ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کیلئے 21مراکز قائم کئے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈرائیونگ کی فنی مہارتیں سکھانے کیلئے 6گھنٹے کا کورس مقرر کیا ہے اورڈرائیونگ کی شدھ بدھ نہ رکھنے والی خواتین کیلئے 30گھنٹے کی ڈرائیونگ ٹریننگ مقرر کی ہے۔
یہ تاریخی اقدام ہے۔ سعودی خواتین نے برسہا برس کے انتظار کے بعدپہلا ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرلیا۔ نہ جانے کب سے سعودی خواتین اپنے دل میں یہ آرزوئیں باندھ رہی تھیں کہ انہیں اپنے وطن میں گاڑی چلانے کا موقع ملے۔ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءکا اقدام اس بات کا غماز ہے کہ آئندہ سعودی عرب میں زندگی کے تمام شعبوں میں اصلاحات آئیں گی ۔ اصلاحات کا کاررواں چل چکا ہے۔ خواتین کے کردار کو موثر بنانے کا ماحول زمینی حقیقت بن چکا ہے تاہم اس کے ساتھ یہ بات اپنی جگہ پر مسلمہ ہے کہ ہم سب کو غیر متزلزل دینی اصولوں کی حفاظت کرتے رہنا ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭