سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والے سعودی امریکہ انویسٹمنٹ فورم میں ان منصوبوں پر روشنی ڈالی گئی جن کی بدولت مملکت ایک نئی شکل میں ڈھل رہا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق فورم میں مختلف بڑے منصوبوں کے سربراہان کے علاوہ دوسرے ممالک کی کمپنیوں کے حکام نے بھی شرکت کی۔
منگل کو ہونے والے سیشن میں اوبر کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر دارا خسروشاہی نے پینل کو بتایا کہ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں کمپنی نے تیزی سے ترقی کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
نیوم: قدیم چٹانوں پر کندہ غیر معمولی نقوش کی تاریخی داستانNode ID: 888046
-
ریاض میں سعودی، امریکی سرمایہ کاری فورم کا آغازNode ID: 889626
تقریباً دس برس قبل ریاض میں اوبر سمارٹ فون سروس کا آغاز ہوا تھا جس کا دائرہ کار دیگر شہروں تک بھی پھیلا۔
سعودی عرب میں اس وقت ایک لاکھ 40 ہزار سعودی ڈرائیور اوبر کے پلیٹ فارم سے منسلک ہیں اور مملکت کے 20 شہروں میں 40 لاکھ لوگوں کو سہولت فراہم کر رہے ہیں۔
چیف ایگزیکٹیو آفیسر دارا خسروشاہ نے فورم کو بتایا کہ اب کمپنی اگلا تکنیکی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کہا کہ جلد ہی مملکت کی سڑکوں پر خودکار گاڑیاں بھی دکھائی دیں گی جو اس میں سوار افراد کے لیے ہی نہیں بلکہ سڑک استعمال کرنے والے دوسرے افراد کے لیے بھی کافی محفوظ ہوں گی۔
خودکار گاڑیوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ یہ ناقابل یقین صلاحیت کی حامل ہیں، جو نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ دوسری سروسز کے مقابلے میں سستی بھی ہوں گی۔
عرب نیوز کے ایڈیٹر ان چیف فیصل جے عباس نے سعودی امریکہ انویسٹمنٹ فورم کا ایک سیشن ماڈریٹ کیا جس میں اُن بڑے منصوبوں پر بات کی گئی جو دنیا بھر میں مملکت کی ترقی کا نیا باب لکھ رہے ہیں۔

سعودی عرب کی جائے پیدائش الدرعیہ کو عالمی سطح پر ایک اہم ثقافتی، تاریخی اور تفریحی مقام میں تبدیل کرنا ان منصوبوں میں سے ایک ہے جو وژن 2030 کے ذریعے تصور کردہ جدیدیت اور تنوع کو آگے بڑھانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
درعیہ کمپنی کے سی ای او جیری انزیریلو نے مملکت کی تاریخ، آل سعود کے آبائی گھر اور شاہی ضلع اتتریف کو محفوظ کرنے کے حوالے سے بات کی، جس کو سنہ 1727 میں پہلی سعودی ریاست کی جائے پیدائش سمجھا جتا ہے اور اس کو 2010 میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل کیا تھا۔
درعیہ منصوبے کے لیے 63 اعشاریہ دو ارب ڈالر رکھے گئے ہیں جن سے 14 مربع کلومیٹر کے رقبے کو عالمی اور ثقافتی منزل کے طور پر نئی شکل دی جائے گی۔
سی ای او جیری انزیریلو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس وقت 45 ہزار کارکن اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور رواں ہفتے 30 لاکھ سیاحوں نے وہاں کا دورہ کیا۔‘
اسی طرح ریاض میں مرابہ ڈیویلپمنٹ کے سی ای او مائیکل ڈائیک نے فورم کو بتایا کہ شہر کے وسط مں بننے والی کیوب کی شکل کی عمارت دنیا کی بلند ترین عمارتوں میں سے ایک ہو گی۔
ان کے مطابق ’یہ ابھی تک سامنے آنے والے عظیم سٹرکچرز میں سے ایک ہے۔‘
انہوں نے اس کا موازنہ لاس ویگاس کے ایم ایس جی سفیئر سے کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تقریباً 18 ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ مکعب اس سے 22 گنا بڑا ہو گا۔
اسی طرح مملکت کی ترقی میں بڑا کردار ادا کرنے والا ایک پراجیکٹ نیوم کا ہے جو بحیرہ احمر کے ساحل پر ایک وسیع شہر کی تعمیر کا منصوبہ ہے جس کو ابھی سے ایک تصوراتی دنیا کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

ڈپٹی سی ای او نیوم ریان فائز نے بتایا کہ 26 ہزار پانچ سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ شہر میساچوسٹس کے برابر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس پیمانے پر شہر کی تعمیر کے لیے اہم انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ریان فائز نے مزید بتایا کہ نیوم ایکوا پاور اور امریکی کمپنی ایئر پراڈکٹس کے مشترکہ منصوبے کے تحت نیوم میں اہم سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیوم میں 194 کلومیٹر لمبی پانی کی پائپ لائن کے علاوہ خوراک سے متعلق انفراسٹرکچر جیسے گرین ہاؤسز بھی بنائے جا رہے ہیں کیونکہ یہ صرف ریئل سٹیٹ کا ایک مںصوبہ نہیں ہے بلکہ یہ معیشت کی ترقی کا منصوبہ ہے۔
فورم میں سعودی وزیر سیاحت احمد الخطیب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ویژن 2030 جب مکمل ہو جائے گا تو صرف پانچ برس میں مملکت کی معیشت کے لیے سیاحت اسی قدر اہم ہو جائے گی جتنی آج کے دور میں تیل کی اہمیت ہے۔
احمد الخطیب نے یہ بھی کہا کہ یہ ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ 2016 میں ویژن 2030 کے بعد سے شعبہ سیاحت کس حد تک آگے بڑھا ہے، یہ ایک خاکہ ہے تیل پر انحصار کم کرنے اور معیشت کو متنوع بنانے کا۔
’اب سعودی عرب کو سبز پہاڑوں کی سرزمین، بحیرہ احمر کے دلکش جزیروں اور ایک مہمان نواز اور شاندار ثقافت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘
سعودی عرب میں سیاحت اور ہاسپٹیلیٹی کے شعبوں نے نمایاں ترقی کی ہے اور غیرملکی و ملکی سیاحوں کی وہ تعداد جو 2019 میں پانچ کروڑ تھی، 2024 میں بڑھ کر ساڑھے 11 کروڑ تک پہنچی۔
یہ اعداد و شمار ویژن 2030 کے تحت طے کیے گئے ہدف سے بھی آگے نکل گئے ہیں جو کہ 10 کروڑ سیاحوں کی آمد کا تھا۔
