Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

ٹرمپ کا دورۂ سعودی عرب اقتصادی سفارت کاری کے نئے دور کا آغاز

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو جب اپنے دوسرے صدارتی دور کے پہلے اور شاید سب سے اہم غیر ملکی دورے پر روانہ ہوئے ہیں، تو امریکہ اور سعودی عرب دونوں کی نظریں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر جمی ہوئی ہیں۔
جنوری میں حلف اٹھانے کے فوراً بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ٹیلی فونک گفتگو میں صد ٹرمپ کو بتایا کہ مملکت اگلے چار سالوں میں امریکہ کے ساتھ اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کی مالیت میں 600 ارب ڈالر کا اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مفاد کے معاہدوں کی مالیت ممکنہ طور پر ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ دوطرفہ تعلقات ایک نئے جرات مندانہ مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں۔
تعلق کے اس نئے باب کو آگے بڑھانے والے عوامل میں ذاتی سفارت کاری، سٹریٹجک تجارتی مفادات، اور جغرافیائی سیاسی ہم آہنگی کا مشترکہ وژن شامل ہے۔
صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ مئی 2017 میں ریاض کا تھا، جو امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک انقلابی اقتصادی شراکت داری اور دفاع، توانائی اور بنیادی ڈھانچے پر مشتمل سینکڑوں ارب ڈالر کے معاہدوں کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوا۔
صدر ٹرمپ ایک بار پھر مملکت کا دورہ کر رہے ہیں جو کہ ان کے اس ہفتے کے دورے کا پہلا پڑاؤ ہے جس میں قطر اور متحدہ عرب امارات بھی جائیں گے۔
یہ دورہ 2017 میں رکھے گئے تعلقات کی کو مزید مضبوط کرنے کا حصہ ہے۔
صدر ٹرمپ کا پہلا دور (2017–2021) قومی مفادات پر مبنی خارجہ پالیسی سے عبارت تھا۔ سعودی عرب جلد ہی اقتصادی اور سٹریٹجک دونوں لحاظ سے ایک اہم اتحادی بن گیا، جس کا ثبوت مئی 2017 کے تاریخی ریاض سربراہی اجلاس میں دیکھا گیا، جہاں شاہ سلمان نے صدر کو غیرمعمولی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔

2017 کے صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران تاریخی معاہدے طے پائے، جن میں سب سے نمایاں 110 ارب ڈالر کا اسلحہ کا معاہدہ تھا۔ (فوٹو: عرب نیوز)

اس سربراہی اجلاس میں تاریخی معاہدے طے پائے، جن میں سب سے نمایاں 110 ارب ڈالر کا اسلحہ کا معاہدہ تھا، جو کہ 350 ارب ڈالر کے بڑے اقتصادی پیکج کا حصہ تھا، جس میں دفاع، توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل تھے۔
ریاستی سطح کے وعدوں کے علاوہ بڑے تجارتی معاہدے بھی طے پائے۔ سعودی آرامکو نے امریکی کمپنیوں جنرل الیکٹرک، شلمبرجے اور ہیلبرٹن کے ساتھ تقریباً 50 ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کیے۔
سعودی وزیر توانائی خالد الفالح نے نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگ جو اس میز پر بیٹھے ہیں، امریکہ میں نمایاں سرمایہ کاری کی نگرانی کر رہے ہیں۔‘
اقتصادی شراکت داری کو مزید مضبوط کرتے ہوئے، سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (PIF) نے بلیک سٹون کی قیادت میں امریکی انفرسٹرکچر میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ اس وعدے نے امریکی سڑکوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کی بحالی کے لیے 40 ارب ڈالر کے فنڈ کو سہارا دیا۔
 ساتھ ہی، سعودی عرب نے سافٹ بینک ویژن فنڈ میں 45 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، جو جدید امریکی ٹیکنالوجی منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے تھی۔
صدر ٹرمپ نے سربراہی اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ ’رہنماؤں کا یہ تاریخی اور بے مثال اجتماع، جو اقوام کی تاریخ میں انوکھا ہے، دنیا کے لیے ہمارے مشترکہ عزم اور باہمی احترام کی علامت ہے۔ امریکہ دوستی، سلامتی، ثقافت اور تجارت کے قریبی رشتے قائم کرنے کا خواہاں ہے۔‘
اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا تھا کہ ان سرمایہ کاری کے منصوبوں سے آئندہ دہائی میں دونوں ممالک میں لاکھوں ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔
’یہ معاہدے امریکی ٹیکنالوجی کو سعودی عرب منتقل کریں گے، ہماری معیشت کو فروغ دیں گے، اور امریکی سرمایہ کاری کو بڑھائیں گے، جو پہلے ہی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہیں۔‘

اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا تھا کہ ان سرمایہ کاری کے منصوبوں سے دونوں ممالک میں لاکھوں ملازمتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

اپنی صدارت کے دوران، ٹرمپ نے بار بار سعودی سرمایہ کاری کو امریکی صنعت کے لیے کامیابی قرار دیا۔ 2018 میں انہوں نے ولی عہد محمد بن سلمان کا وائٹ ہاؤس میں خیرمقدم کیا، جہاں انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے اسلحے کی خریداری کے تفصیلی چارٹ دکھائے اور متعدد امریکی ریاستوں میں ملازمتوں کے فوائد کو اجاگر کیا۔
اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ہم بہت کم وقت میں اچھے دوست بن گئے ہیں۔‘
امریکہ-سعودی بزنس کونسل کے اقتصادی تحقیق کے ڈائریکٹر البراع الوزیر نے 2017 کے دورے کو دوطرفہ اقتصادی تعلقات میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ صرف معاہدوں کا حجم نہیں تھا — بلکہ دونوں حکومتوں اور نجی شعبے کے درمیان سٹریٹجک ترجیحات کی ہم آہنگی تھی جس نے اس لمحے کی کامیابی کو متعین کیا۔‘
’یہ لین دین پر مبنی سفارت کاری سے طویل مدتی تجارتی انضمام کی طرف ایک تبدیلی کی علامت تھی۔‘
ٹرمپ کی 2024 میں دوبارہ انتخابی کامیابی نے دوطرفہ اقتصادی رفتار کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے اور الوزیر کے مطابق یہ نئی پیش رفت مملکت کی بدلتی ہوئی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ معاہدے روایتی شعبوں جیسے دفاع اور توانائی سے متعلق ہیں، لیکن اب ہم جدید مینوفیکچرنگ، مصنوعی ذہانت، بائیوٹیک اور مالیاتی خدمات میں بھی ترقی دیکھ رہے ہیں، جو کہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت سے زیادہ وسیع اور متنوع ایجنڈے کو ظاہر کرتا ہے۔
جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم ڈیووس میں ٹرمپ نے مزید اقدامات کا اشارہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سعودی ولی عہد سے سرمایہ کاری کا ہدف ایک ٹریلین ڈالر تک بڑھانے کی درخواست کریں گے، اور اسے ایک مستحکم اور قابل اعتماد شراکت داری کا فطری تسلسل قرار دیا۔

صدر کے طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ مئی 2017 میں ریاض کا تھا۔ (ایس پی اے)

سعودی وزیر معیشت فیصل الابراہیم نے فورم میں تصدیق کی کہ 600 ارب ڈالر کا وعدہ حکومتی خریداریوں اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری دونوں پر مشتمل ہے جس میں دفاع، توانائی، بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی کے شعبے شامل ہیں۔
سعودی وزارت سرمایہ کاری کے مطابق امریکہ اب سعودی عرب میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے پانچ بڑے ذرائع میں شامل ہے جس میں خاص طور پر ویژن 2030 سے ہم آہنگ شعبے جیسا کہ انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور قابل تجدید توانائی ہیں۔
جنوری 2025 تک، سعودی عرب کے پاس 126.9 ارب ڈالر کے امریکی خزانے کے بانڈز تھے، جو کہ اسے امریکی قرض کے 20 بڑے غیر ملکی حاملین میں شامل واحد خلیجی ملک بناتا ہے۔
سعودی، امریکی سرمایہ کاری فورم منگل کو کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر ریاض میں منعقد ہو رہا ہے، جہاں ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون عالمی توجہ کا مرکز بنے گا۔
2023  کے اختتام تک، امریکہ سعودی عرب میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار رہا، جس کا براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) سٹاک 54 ارب ڈالر تک پہنچا، جو مملکت کی کل ایف ڈی آئی کا تقریباً 23 فیصد ہے۔
فی الحال 1,266 امریکی کمپنیاں سعودی عرب میں فعال لائسنس رکھتی ہیں، جن میں سے 440 کو گزشتہ سال جاری کیے گئے۔ یہ کمپنیاں نقل و حمل، مینوفیکچرنگ، ریٹیل، آئی سی ٹی، اور پیشہ ورانہ خدمات جیسے اہم شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے 44 ہزار سے زائد سعودی شہریوں سمیت 80 ہزار سے زائد افراد کو روزگار ملا ہوا ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے امریکہ میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)

سعودی عرب کی جانب سے امریکہ میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جس کا ایف ڈی آئی سٹاک اب 75 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ پی آئی ایف، آرامکو اور  ایس اے بی آئی سی جیسے اہم ادارے اس میں پیش پیش ہیں۔
2024 میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مضبوط رہے۔ سعودی عرب کی امریکہ کو برآمدات 12.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن میں تقریباً 3 ارب ڈالر کی غیر تیل مصنوعات شامل تھیں۔
ادھر، امریکہ کی سعودی عرب کو برآمدات 19.7 ارب ڈالر رہیں، جن میں مشینری اور آلات (5.1 ارب ڈالر)، گاڑیاں (2.6 ارب ڈالر)، اور طبی و بصری آلات (1.5 ارب ڈالر) شامل ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی اہم مصنوعات میں معدنیات (10 ارب ڈالر)، کھاد (830 ملین ڈالر) اور نامیاتی کیمیکل (526 ملین ڈالر) شامل تھے۔
رواں سال کا امریکی سعودی اقتصادی فورم دونوں سٹریٹجک اتحادیوں کے درمیان جدید اقتصادی سفارت کاری کی ایک نئی بنیاد بننے جا رہا ہے۔
ٹرمپ کے دورہ ریاض میں نئے دفاعی معاہدے اور اقتصادی تعاون پر بھی توجہ متوقع ہے۔

جیسے جیسے ٹرمپ سعودی عرب واپس آ رہے ہیں، امریکی، سعودی اقتصادی اتحاد نہ صرف برقرار ہے بلکہ توسیع کے دہانے پر بھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

توانائی کی پالیسی بھی ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے، جہاں ٹرمپ نے سعودی عرب سے تیل کی پیداوار بڑھانے کی اپیل کی ہے تاکہ عالمی منڈیوں کو مستحکم کیا جا سکے اور ایندھن کی قیمتوں پر دباؤ کم کیا جا سکے، جو روسی آمدنی کو محدود کرنے جیسے جغرافیائی سیاسی اہداف سے بھی جڑی ہے۔
الوزیر کے مطابق، یہ دورہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں اور صنعتی ترقی میں بھی تیزی لا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکی کمپنیاں خاص طور پر ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب کے اہداف (خصوصا معیشت کو متنوع بنانے) کے حصول میں مدد، خاص طور پر توانائی کی منتقلی، خودکاری اور ڈیٹا اینالیٹکس میں، کی بہترین پوزیشن میں ہیں۔
ایسے اشارے موجود ہیں کہ خلیجی سرمایہ کار اس تجدید شدہ شراکت داری کا مثبت جواب دے رہے ہیں۔ 2024 کے امریکی انتخابات کے بعد پی آئی ایف کے گورنر یاسر الرمیان کی صدر ٹرمپ اور ایلون مسک کے ساتھ ایک تصویر سامنے آئی، جنہیں اب وائٹ ہاؤس میں سینیئر مشیر کے طور پر تعینات کیا گیا ہے۔
بلومبرگ نے اس تصویر کو ٹرمپ انتظامیہ پر خلیجی اعتماد کی بحالی کی علامت قرار دیا۔
جیسے جیسے ٹرمپ سعودی عرب واپس آ رہے ہیں، امریکی، سعودی اقتصادی اتحاد نہ صرف برقرار ہے بلکہ توسیع کے دہانے پر بھی ہے۔ جسے باہمی مفادات، ذاتی تعلقات اور اس مشترکہ یقین سے تقویت مل رہی ہے کہ تجارت بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے میں سفارت کاری کا ایک مضبوط ستون ہے۔

شیئر: