امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نہ صرف اپنی پہلی صدارتی مدت میں بلکہ موجودہ صدارتی مدت میں بھی سعودی عرب کو اپنی پہلی بیرونی سرکاری دورے کی منزل کے طور پر منتخب کرنا اس بات کی واضح علامت ہے کہ سعودی عرب کو آج جو جیو پولیٹیکل مقام حاصل ہے، وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب نہ صرف خطے کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے بلکہ اس کی اقتصادی، مذہبی حیثیت، اصلاحاتی رجحانات اور تکنیکی ترقی بھی عالمی سطح پر اسے نمایاں طاقت کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
امریکہ بخوبی اس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ سعودی عرب بین الاقوامی فیصلوں پر کس قدر اثر انداز ہو سکتا ہے اور یہ کہ وہ عرب و اسلامی دنیا کی رہنمائی میں اور امت کے مفادات کے تحفظ میں کیسا نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب کی دنیا کے بیشتر ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ سٹرٹیجک شراکتیں، امریکی حکومتوں کو مسلسل اس امر پر آمادہ کرتی آئی ہیں کہ وہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو شراکت داری اور تکمیلیت کے درجے تک لے جائیں۔
92 سالہ مضبوط تعلقات
سعودی، امریکی تعلقات گزشتہ 92 برسوں میں مسلسل مضبوط ہوئے ہیں اور حالیہ برسوں میں یہ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچے ہیں۔
یہ تعلقات باہمی احترام اور اعتماد کی بنیاد پر استوار ہیں اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اس اعلان سے مزید تقویت ملی ہے کہ سعودی عرب آئندہ چار برسوں کے دوران امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دے گا۔
یہ سب کچھ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط سیاسی شراکت، دو طرفہ سرمایہ کاری اور وسیع اقتصادی مفادات پر قائم ہے۔
ابتدائی مفاہمتیں
سعودی عرب میں تیل کی دریافت (1933ء) کے ساتھ ہی ریاض اور واشنگٹن کے درمیان اسٹراٹیجک تعلقات کی بنیاد پڑی اور یہ تعلق 1945ء میں شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کے درمیان تاریخی ملاقات کے ساتھ مزید مستحکم ہوا جو کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے اہم ملاقات تصور کی جاتی ہے۔
یہ ملاقات بحری جہاز ’کوئنسی‘ پر ہوئی جس کے نتیجے میں بنیادی مفاہمتوں نے جنم لیا جو آج تک دونوں ممالک کے درمیان گہرے تعلقات کا سنگِ بنیاد بنی ہوئی ہیں۔
1974ء میں سعودی، امریکی مشترکہ کمیٹی کے قیام کے ساتھ یہ تعلقات نئے مرحلے میں داخل ہوئے۔
اسی سال شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے امریکی صدر نکسن کا استقبال کیا اور پہلی سعودی، امریکی مشترکہ اقتصادی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جو دونوں ممالک کے اقتصادی اور سرمایہ کاری تعلقات کی گہرائی کی دلیل تھا۔
اہم شاہی دورے
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا 2015ء میں امریکہ کا دورہ اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2016ء اور 2018ء میں دو تاریخی دورے سعودی، امریکی اسٹراٹیجک تعلقات کو مزید وسعت دینے کا سنگِ میل ثابت ہوئے۔
ان تعلقات کی بنیاد دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ مفادات اور مختلف شعبہ جات میں تعاون پر رکھی گئی ہے۔
مشترکہ دلچسپی
صدر ٹرمپ کا حالیہ دورہ پچھلے دورے کی طرح اس امر کا آئینہ دار ہے کہ نئی امریکی حکومت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو کس قدر اہمیت دیتی ہے اور وہ سعودی قیادت کے ساتھ رابطے، شراکت اور بین الاقوامی و علاقائی امور پر مشاورت کو کتنا اہم گردانتی ہے۔
موجودہ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں دونوں ممالک کو درپیش مشترکہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی تعاون ناگزیر ہے۔