حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کے روز کہا کہ گروپ اب اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کی بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کی غزہ پر ’بھوک مسلط کرنے کی جنگ‘ کو روکے۔
حماس رہنما باسم نعیم نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب تک غزہ کی پٹی میں بھوک اور نسل کشی کی جنگ جاری ہے، تب تک بات چیت میں شامل ہونے یا نئی جنگ بندی کی تجاویز پر غور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
مزید پڑھیں
-
غزہ میں پیش قدمی، اسرائیل نے ہزاروں ریزور سپاہی بلا لیے: میڈیاNode ID: 889174
-
یمن کے حوثی باغیوں کا امریکہ پر ’تازہ حملوں‘ کا الزامNode ID: 889211
انہوں نے کہا کہ دنیا کو وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ غزہ میں ’بھوک، پیاس اور قتل و غارت کے جرائم‘ کا خاتمہ کیا جا سکے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے اور غزہ کے سابق وزیر صحت ممبر باسم نعیم کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائیوں کو وسعت دے رہی ہے، جس میں ’زیادہ تر‘ شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا شامل ہے۔
پیر کے روز اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے فوج کے اس منصوبے کی منظوری دی جس کے تحت ایک اسرائیلی عہدیدار کے مطابق غزہ کی پٹی پر قبضہ اور ان علاقوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا شامل ہے۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے غزہ کے تقریباً تمام باشندے ایک سے زیادہ بار نقل مکانی کر چکے ہیں۔
2 مارچ سے غزہ مکمل طور پر اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہے اور شدید انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔
18 مارچ کو اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ حملے شروع کر دیے، جس سے دو ماہ کی جنگ بندی کا خاتمہ ہو گیا۔
فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے منگل کے روز ایک ریڈیو انٹرویو میں اسرائیل کے غزہ پر حملے کے منصوبے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا اور کہا کہ اسرائیلی حکومت ہیومینٹیرین قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔