Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

انڈین انتہا پسند پاکستانیوں کو ’گوبھی کی کاشت‘ کے ذکر سے کیوں دھمکا رہے ہیں؟

انڈین سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے کی گئی پوسٹس تاریخ بھاگلپور کے فسادات کی طرف اشارہ ہیں۔ (فوٹو: پکسابے)
پہلگام واقعے کے بعد جہاں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے وہیں انٹرنیٹ پر دونوں ممالک کی عوام بھی آمنے سامنے ہیں۔
حال ہی میں جب انڈیا نے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تو سوشل میڈیا ممکنہ جنگ کے تبصروں سے گونجتا رہا، جس پر پاکستانی صارفین کی جانب سے طنزیہ میمز کے ذریعے جواب دیا گیا۔ 
ان کشیدہ حالات میں جنگی جنون اور نفرت کو ہوا دینے والے عناصر بھی سرگرم ہیں اور حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر دھمکی آمیز ٹوئٹس کا ایک سلسلہ سامنے آیا ہے جس میں انڈین اکاؤنٹس گوبھی کا ذکر کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
وائس آف ہندوز نامی ایک اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی جس میں لکھا گیا ’صرف بہاری جانتے ہیں کہ گوبھی نان ویجی ٹیرین ہے یعنی سبزی نہیں۔‘

اس پوسٹ پر ہی ایک کمنٹ کیا گیا جس میں لکھا گیا ’بنگال کی موجودہ صورتحال صرف گوبھی اگا کر ہی ٹھیک کی جا سکتی ہے۔ اور آپ اس کی ٹریننگ لینے بھاگلپور بہار آ سکتے ہیں۔ آنے والے وقت میں گوبھی کی کاشت ہی آپ کا خاندان بچا سکتی ہے۔‘ 
ایک انڈین صارف نے پوسٹ کی ’کیا ہوتا اگر پاکستان کے قریب بہار کا بارڈر ہوتا؟‘ جس کے جواب میں ایک اور صارف نے لکھا ’پاکستان میں گوبھی کی کھیتی ہو گی‘۔ 
سوشل میڈیا پر گوبھی سرچ کیا جائے تو متعدد پوسٹس ملیں گی جن میں مسلمانوں کو دھمکایا جا رہا ہے۔ آخر ان کا مطلب کیا ہے؟ 

بھاگلپور 1989 کا فساد

1989 کا سال انڈیا کی ریاست بہار کے شہر بھاگلپور کے لیے خوف و دہشت کا پیغام لے کر آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب فرقہ وارانہ فسادات نے سینکڑوں جانیں لے لیں اور ہزاروں لوگ بےگھر ہو گئے۔ یہ فساد انڈیا کی جدید تاریخ کے بدترین فسادات میں شمار ہوتا ہے۔
بھاگلپور فساد کا پس منظر رام جنم بھومی تحریک سے جُڑا ہوا ہے جس میں وشو ہندو پریشد (VHP) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی جانب سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے مہم چلائی جا رہی تھی۔ 
اکتوبر 1989 میں ایودھیا سے ایک ’رام شلا یاترا‘ نکالی گئی جو بھاگلپور سے بھی گزری۔ اسی دوران ایک مسجد کے قریب سے جلوس گزارا گیا جس پر اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے۔ مسلمانوں کی جانب سے بھی مخالفت ہوئی، اور یہی ٹکراؤ کا آغاز بن گیا۔
24 اکتوبر 1989 کو دیوالی کے دن ہندو اور مسلمان گروہوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں جو جلد ہی بڑے پیمانے پر پھیل گئیں۔ پولیس اور انتظامیہ کی کمزوری کے باعث یہ فسادات کئی ہفتے جاری رہے۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا، خواتین کی عصمت دری کی گئی اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
گوبھی کا اس واقعے سے کیا تعلق؟
1989 میں بہار کے بھاگلپور میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ایک لرزہ خیز واقعہ 27 اکتوبر کو لوگائیں نامی گاؤں میں پیش آیا، جہاں 116 بے گناہ مسلمانوں کو بےدردی سے قتل کر کے کھیت میں دفن کر دیا گیا اور ان قبروں پر گوبھی اگا دی گئی تاکہ قتل عام کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔
حیرت انگیز طور پر 25 دن تک یہ خفیہ اجتماعی قتل کسی کے علم میں نہ آ سکا۔ لیکن وقت نے راز فاش کر دیا جب ان کھیتوں کے اوپر گدھ منڈلانے لگے جس کے بعد آس پاس کے لوگوں کو شک ہوا کہ کوئی خوف ناک واقعہ ہوا ہے۔
اس وقت کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اشوک کمار سنگھ جو ریلیف ورک پر مامور تھے، ایک قریبی گاؤں میں گئے جہاں انہوں نے کچھ مقامی افراد کو ایک بڑے حادثے کا ذکر کرتے سنا۔ انہوں نے فوراً لوگائیں کا رخ کیا اور مقامی تھانے جگدیش پور کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر رام چندر سے پوچھ گچھ کی، لیکن رام چندر نے لاعلمی ظاہر کی۔
تاہم درختوں پر منڈلاتے گدھوں نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا۔ اشوک سنگھ نے خود علاقے کی تلاشی شروع کروائی۔ جب زمین کھدوائی گئی تو گوبھی کے کھیت سے 108 لاشیں برآمد ہوئیں۔


بھاگلپور فساد انڈیا کی جدید تاریخ کے بدترین فسادات میں شمار ہوتا ہے (فوٹو: وکی میڈیا کامنز)

تحقیقات کے مطابق پولیس انسپکٹر رام چندر نے نہ صرف غفلت برتی بلکہ فسادیوں کو یہ کہہ کر اکسایا تھا کہ ’کوئی مسلمان زندہ نہ بچنے پائے۔‘ حملہ آوروں کی تعداد تقریباً چار ہزار تھی جو نو گھنٹوں تک قتل و غارت میں مصروف رہے۔
اسی روز ایک اور گاؤں چندیری میں بھی ظلم کا بازار گرم ہوا۔ وہاں بھی 100سو سے زائد مسلمانوں کو قتل کر کے ان کی لاشیں تالاب میں پھینک دی گئیں۔ اس قتل عام کی واحد زندہ گواہ ملکہ بانو تھیں، جن کا پاؤں تلوار کے وار سے کٹ گیا تھا۔ اس کیس میں مجرموں کو سزا سنائی جا چکی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق 1000 کے قریب افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس میں تقریباً 50 ہزار افراد بےگھر ہوئے، درجنوں مساجد اور مسلم مذہبی مقامات مسمار کیے گئے اور مسلمانوں کی ملکیتی پاور لومز اور ہینڈ لومز جلا دی گئیں۔
فسادات کے بعد کئی کمیٹیاں بنائی گئیں، جنہوں نے پولیس اور انتظامیہ کو مجرم ٹھہرایا، خاص طور پر ضلع مجسٹریٹ اور سینیئر پولیس افسران کی ملی بھگت کی نشاندہی کی گئی۔ کئی مقدمات درج ہوئے، لیکن انصاف کی رفتار بہت سست رہی۔ کئی متاثرین آج تک انصاف کے منتظر ہیں۔

 

شیئر: