اردن کی ایک عدالت نے بدھ کے روز چار افراد کو ’قومی سلامتی کو نشانہ بنانے کے منصوبوں‘ کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ کیس حال ہی میں کالعدم قرار دی گئی تنظیم اخوان المسلمون سے متعلق ہے۔
اپریل کے اوائل میں اردن کی انٹیلیجنس سروس نے اعلان کیا تھا کہ اس نے 16 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ’قومی سلامتی کو نشانہ بنانے، ملک میں افراتفری پھیلانے اور تخریب کاری کرنے کے منصوبے ناکام بنا دیے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
کویت میں کرپٹو کرنسی کی غیر قانونی مائننگ کا انکشافNode ID: 888775
اس کے بعد اردن نے گذشتہ ہفتے اخوان المسلمون کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان کیا، جو ایک بین الاقوامی اسلام پسند تحریک ہے۔ اخوان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہتھیار بنانے، ذخیرہ کرنے اور مملکت کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔
بدھ کو اردن کی ریاستی سلامتی کی عدالت نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے 16 میں سے چار ملزمان کو 20 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
بیان کے مطابق چاروں افراد کو ’دھماکہ خیز مواد، ہتھیار اور گولہ بارود غیر قانونی طور پر استعمال کرنے اور ایسے اقدامات کرنے کے ارادے سے رکھنے‘ کے جرم میں سزا دی گئی، جو کہ عوامی نظم و ضبط کو خراب کر سکتے تھے اور سماجی سلامتی و امان کو خطرے میں ڈال سکتے تھے، اور یہ انسداد دہشت گردی قانون کی خلاف ورزی تھی۔
بیان میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ افراد اخوان المسلمون کے ارکان تھے یا نہیں، لیکن سرکاری ٹیلی ویژن پہلے تین مشتبہ افراد کے اعترافی بیانات نشر کر چکا ہے جنہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ اخوان کے رکن تھے۔
بعد ازاں، اخوان المسلمون نے ایک بیان جاری کیا جس میں ان افراد سے لاتعلقی ظاہر کی گئی اور کہا گیا کہ انہوں نے ذاتی محرکات کے تحت کارروائی کی۔
وزیر داخلہ مازن الفریہ نے 23 اپریل کو اعلان کیا کہ حکومت نے ’نام نہاد اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے اور اس کی کسی بھی سرگرمی کو قانون کی خلاف ورزی قرار دینے‘ کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے 2020 میں اخوان المسلمون کو تحلیل کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود یہ تنظیم اردن میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اور حکام اکثر اس کی سرگرمیوں سے صرفِ نظر کرتے رہے ہیں۔