2020 کو تاریخ کا گرم ترین سال کہا جا رہا ہے جو گرمی کے لحاظ سے 2016 کے برابر رہا۔
العربیہ نیوز کے مطابق یہ انکشاف یورپی ماحولیاتی ادارے کوپرنیکس نے کیا ہے۔
2020 کا اختتام درجہ حرارت میں اوسط 1.25 ڈگری سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ ہوا، یہی درجہ حرارت 2016 میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
ذیابیطس کی گولیاں اور انسولین کے انجیکشنز ختم ہوجائیں گے؟Node ID: 529271
-
کورونا کے مریض کی سونگھنے کی حِس کتنی مدت میں بحال ہوتی ہے؟Node ID: 530986
-
کوے ذہانت میں بڑے بندروں کے برابر ہیں، جرمن تحقیقNode ID: 531006
لیکن فرق یہ ہے کہ 2016 میں ’ال نینو‘ واقعہ کا مشاہدہ کیا گیا تھا، یہ ایک فطرتی امر ہے جو درجہ حرارت میں اضافےکا سبب بنتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر 2020 میں بھی ال نینو کا واقعہ ہوا ہوتا تو اس میں اوسط درجہ حرارت 0.1 اور 0.2 ڈگری زیادہ ہوتا۔
یورپ میں ریکارڈ
2020 میں یورپ کے اندر درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا، جس نے 2019 کے درجہ حرارت کے ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔ کوپرنیکس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گذشتہ دہائی گرم ترین دہائی تھی۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا تعلق ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ ان میں سب سے خطرناک کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے، جو کوئلے، تیل اور گیس کے جلنے سے وجود میں آتی ہے۔
کم سے کم حد کا تعین
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2020 میں عالمی درجہ حرارت میں 1.25 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہوا جو 1900 سے 1985 تک کے صنعتی انقلاب کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بچنے کے لیے عالمی درجہ حرارت کی حد بندی 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے 2.7 سینٹی گریڈ تک ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ یورپی ماحولیاتی ادارے نے نوٹ کیا ہے کہ آرکٹک اور سائبیریا کے کچھ حصوں کےدرجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
