یکم جنوری 1929 کو قبائیلی علاقے پارہ چنار میں پیدا ہونے والا سعید خان جب لاہور میں ننگے فرش پر سوتا تھا اور گزر بسر کرنے کے لیے بل بورڈز بناتا تھا تو شاید ہی کسی کو گمان تھا کہ ایک دن وہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن بن جائے گا اور روتوں کو ہنسائے گا۔
چھوٹے موٹے کام کرتے کرتے وہ فلموں میں ایکسٹرا کے طور پر آنا شروع ہوا تو اس کی صلاحیتوں کے جوہر کھلنا شروع ہوئے۔ پھر وہ سعید خان نہ رہا بلکہ رنگیلا بن گیا، جن کی رنگ رنگیلی حرکتوں اور جملے بازیوں سے دیکھنے والے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے اور ان کے دل میں چاہے جتنا بھی دکھ بھرا ہوتا، چہرہ خوشی سے جگمگا اٹھتا۔
اپنے اس فن کی بدولت رنگیلا نے چار دہائیوں تک پاکستان سینما سکرین پر راج کیا اور تین سو سے زائد اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ انہوں نے محنت اور جدوجہد کے بل بوتے پر اپنا مقام بنایا اورکئی ایوارڈ اپنے نام کیے۔

اداکاررنگیلا نے اپنے بولنے کے انداز اور حرکات و سکنات سے کامیڈی کی۔ انہیں کامیڈی کرتے ہوئے کبھی یہ خیال رکھتے نہیں دیکھا گیا کہ وہ کیسے لگ رہے ہیں بلکہ ان کی توجہ اسی بات پر ہوتی کہ وہ کیسا کردار نبھا رہے ہیں۔
ماضی کی سپر ہٹ اداکارہ دیبا بیگم، جنہوں نے رنگیلا کے ساتھ ان کی ذاتی پروڈکشنز میں کام کیا ان کے بارے میں بتاتی ہیں۔
’رنگلیلا انتہائی محنت اور پرفیکشن کے ساتھ کام مکمل کرتے۔ ان جیسے جدوجہد کرنے والے آرٹسٹ کم ہی دیکھے ہیں۔ وہ روتوں کو ہنسانا جانتے تھے۔‘
رنگیلا تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کی ابتدا کئی چھوٹے چھوٹے کاموں سے کی۔ جہاں جگہ ملتی سو جاتے جو ملتا کھا لیتے۔ صرف یہ کہ انہیں رہنے کا کوئی ٹھکانہ مل جائے۔ انہوں نے ایکسٹرا کے طور پر کردار نبھاتے نبھاتے کئی کرداروں کو لازوال کر دیا۔
