” علماءکانفرنس“ افغانستان میں امن و استحکام کیلئے ثالثی کرے، مولوی قیوم الدین کاشفی
افغا ن علماءکونسل کے سربراہ کاشفی نے مصالحت کیلئے 6 نکاتی فارمولا پیش کردیا، علماء بغاوت اور فتنہ کے احکام بیان کریں، آل الشیخ ، رنجشوں کو ختم کرکے اختلافات دور کرائے جائیں، شیخ صالح بن حمید کا افغان علماءکانفرنس سے خطاب
جدہ ( ارسلان ہاشمی ) افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کیلئے مسلم علماءکی بین الاقوامی 2 روزہ کانفرنس کا آغاز منگل کو جدہ میں ہوگیا۔ اختتامی اجلاس آج بدھ کو مکہ مکرمہ میں منعقد ہوگا۔ کانفرنس سے او آئی سی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین کے علاوہ سعودی عرب کے وزیر اسلامی امور و دعوت و رہنمائی ڈاکٹر عبداللطیف آل الشیخ نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام سے خادم حرمین شریفین کی دلچسپی غیر معمولی ہے۔ علماء کا فرض ہے کہ وہ حقائق سے آگاہ کریں ، تفرقہ سے بچنے پر زور دیں اور والیان ریاست کیخلاف بغاوت کے باعث پیدا ہونےو الے فتنہ کی بابت اسلامی شریعت کے حکام بیان کریں۔ کانفرنس سے افغان علماءکونسل کے سربراہ مولوی قیوم الدین کاشفی نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے افغانستان کے مسئلے کےلئے سنجیدگی سے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے او آئی سی کے کردار کو بھی خراج تحسین پیش کیا ۔ کاشفی نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغان صدر نے قومی مصلحت کے پیش نظر مستقل بنیادوں پر قیام امن کےلئے کوشش کرتے ہوئے عوام کی آراءکے مطابق نکات تشکیل دے کر طالبان کو صلح کا پیغام بھیجا جسے افغان عوام ، او آئی سی ممالک اور اسلامی دنیا کے علاوہ بین الاقوامی کمیونٹی نے بھی بے حد سراہا۔ مصالحتی پیغام میں طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی تاکہ میز پر جمع ہو کر مسئلے کا حل تلاش کیاجائے۔ کاشفی نے مزید کہا کہ افغانستان میں قیام امن کا مطالبہ عوامی منصوبے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کےلئے علماء متفقہ طور پر اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں اس ضمن میں سہ فریقی علماءکا اجلاس انڈونیشیا میں بھی منعقد ہو چکا ہے جس میں افغانی ، پاکستانی اور انڈونیشی علما ءشامل تھے ۔ یہ سہ فریقی اجلاس امن منصوبے کی ایک کڑی تھی ۔ اس کے بعد کابل میں بھی 3ہزار کے قریب علماءکا اجلاس منعقد کیا گیا جسے " فتویٰ الصلح " کا عنوان دیا گیا تھا۔ اس اجلاس کا مقصد افغانستان کے طول و عرض میں جاری جنگ و جدال کو ختم کرنا اور امن کا قیام تھا ۔ علماءکی جانب سے افغان صدر اشرف غنی کو پیش کی جانے والی قرار دادوں کو سراہا گیا تھا جس میں ان نکات کو پیش کیا گیا تھا جن کی بنیاد پر مصالحتی عمل کو مکمل کرنا تھا۔ ہم طالبان موومنٹ کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے عید الفطر کے موقع پر 3 دن کےلئے جنگ بندی کو قبول کرتے ہوئے افغانی عوام کو بے خوف ہو کر عید کی خوشیاں منانے دیں ۔ ہماری شدید خواہش ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی مستقل صورت اختیار کر جائے اور افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن قائم ہو ۔ 3 روزہ جنگ بندی نے یہ ثابت کر دیا کہ افغان حکومت ، عوام اور طالبان بھی قیام امن کے کس قدر متلاشی ہیں مگر وہ خفیہ ہاتھ جوافغانستان کو امن کا گہوارہ بنتے نہیں دیکھنا چاہتے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کےلئے دوبارہ متحرک ہو گئے ۔ مولوی کاشفی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہم افغان علماءافغانستان میں مستقل قیام امن کےلئے آپکی جانب ثالثی کے لئے دیکھ رہے ہیں ۔ افغان علماءکونسل کو صدر اشرف غنی کی جانب سے افغانستان میں قیام امن کےلئے تمام اختیارات حاصل ہیں اور افغان ملت کی نظریں اس کانفرنس کے نتائج پر لگی ہیں۔ کاشفی نے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کیاجسے افغان علماءنے مشترکہ طور پر منظور کیا تھا جس میں کانفرنس کے شرکاءسے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں فریقین سے مطالبہ کریں کہ فوری جنگ بندی کرکے مذاکرات کا آغاز کیا جائے ۔ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرنے کےلئے کانفرنس میں شریک افراد پر مشتمل وفد کا تعین کیاجائے ۔ او آئی سی اپنے رکن ممالک کے علماءکا اجلاس افغانستان میں منعقد کرے تاکہ افغانستان میں قیام امن کی راہیں تلاش کرکے ان پر عمل کو یقینی بنایا جاسکے ۔ خادم حرمین شریفین سے درخواست ہے کہ وہ طالبان لیڈروں کو حرمین شریفین میں مدعو کرکے انہیں براہ راست مذاکرات کی میز پر لانے کےلئے اپنا کردار ادا کریں ۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے افغانستان کی میزبانی میں ایک اور علماءکانفرنس منعقد کی جائے ۔ اور چھٹے نکتے میں کہا گیا ہے کہ ہم او آئی سی رکن ممالک اور عالم اسلام کے علماءسے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے اپنے واضح موقف کی وضاحت کریں ۔ کانفرنس کے پہلے افتتاحی اجلاس سے علماءکمیٹی کے سربراہ شیخ ڈاکٹر صالح بن عبداللہ حمید نے بھی خطاب کیا اور قیام امن کےلئے علماءکے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت اسلام امن و سلامتی کا دین ہے ۔ اسلام میں دہشتگردی کا کوئی وجود نہیں ۔ کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی کےلئے قیام امن کو کسی طر ح نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ۔ شیخ صالح نے مزید کہا باہمی رنجشیں اور اختلافات ، جنگ کی آگ بھڑکانے کا باعث بنتی ہیں ۔ رنجشوں کو ختم کرکے اختلافات کو دور کرنا چاہئے ۔ کسی بھی معاشرے میں بہتری لانے کےلئے ضروری ہے کہ عفو اور درگزر کی صفت کو اپنا یاجائے اور باہمی مصالحت کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے قومی و ملی منفعت کی جانب کام کیاجائے ۔ کانفرنس کے دو کھلے اجلاس ہونگے ان میں سے ایک کا موضوع " اسلام میں مصالحت، افغانستان میں امن واستحکام سے متعلق علماءکا کردار ہے” اور دوسرے اجلاس کا عنوان ہوگا “۔دہشت گردی اور انتہاءپسندی سے متعلق اسلام کا موقف " اختتامی اجلاس آج مکہ مکرمہ کے قصر الضیافہ میں ہوگا۔