اقوام متحدہ اور اسرائیل نے کہا ہے کہ تین ماہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد ابتدائی طور پر چند امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل خوراک، ادویات اور دیگر سامان کی فراہمی پر پابندی عائد تھی۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوی ایٹد پریس کے مطابق پیر کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی کابینہ نے غزہ میں ’بنیادی سامان‘ کی فراہمی کی اجازت دی تھی اور تسلیم کیا تھا کہ اس پر اتحادیوں کی جانب سے دباؤ تھا۔
اسرائیل کی دفاعی کابینہ کے انچارج کا کہنا ہے کہ 20 لاکھ کی آبادی والے شہر میں پانچ ٹرک کیریم شالوم سرحد کے راستے داخل ہوئے جن میں میں بچوں کی خوراک کا سامان اور دوسری ضروری اشیا شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسرائیلی فوج کا غزہ میں نئے آپریشن کے ’ابتدائی مرحلے‘ کا آغازNode ID: 889797
-
اسرائیل کی غزہ میں ’خوراک کی ضروری مقدار‘ کے داخلے کی اجازتNode ID: 889874
اقوام متحدہ نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ابھی علاقے کے لیے مزید مدد بھی درکار ہے۔
فوڈ سکیورٹی کے ماہرین نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے مارچ میں ختم کی جانے والی جنگ بندی سے قبل غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 600 امدادی ٹرک داخل ہوئے تھے۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ انہوں نے غزہ کے لیے محدود پیمانے پر ’ضروری اشیا‘ کی امداد دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ اتحادیوں نے کہا تھا کہ فلسطین سے ’بھوک کی تصاویر‘ سامنے آنے پر نئے فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کر سکتے۔
اقوام متحدہ کے شعبہ انسانی امداد کے سربراہ ٹام فلیچر کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں جانے والے ٹرک ضرورت کے اس سمندر کے مقابلے میں ایک قطرے کے برابر ہیں تاہم مزید چار ٹرکوں کو حکام کی جانب سے کلیئر کر دیا گیا ہے اور وہ کل داخل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت علاقے میں جو افراتفری کی صورت حال ہے اس سے لگتا ہے کہ امدادی سامان کو لوٹا یا چوری کیا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طویل عرصے تک ناکہ بندی جاری رہی اور وسائل تیزی سے کم ہوتے گئے۔

انہوں نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ امدادی سامان کی فراہمی کے لیے شمالی اور جنوبی علاقے میں مزید سرحدی مقامات بھی کھولے تاکہ تسلسل قائم ہو سکے۔
اسرائیل کی جانب سے رواں ہفتے کے آخر میں غزہ پر مسلسل فضائی اور زمینی حملے کیے اور اس کی فوج نے دوسرے بڑے شہر خان یونس کے باسیوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی دیا۔
یہ وہی شہر ہے جہاں 19 ماہ سے جاری جنگ کے دوران اسرائیلی فوج پہلے بھی ایک بڑا آپریشن کر چکی ہے جس نے زیادہ تر علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد حماس پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ سات اکتوبر 2023 کو یرغمال بنائے گئے باقی افراد کو رہا کرے جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ ان کو تب ہی رہا کیا جائے گا جب اسرائیل دیرپا جنگ بندی کرے گا اور علاقے سے نکل جائے گا۔
پیر کو نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل پورے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے ساتھ ساتھ امداد کی تقسیم کے لیے ایک نیا منصوبہ لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل غزہ کی آبادی کی رضاکارانہ طور پر دوسرے ممالک کو ہجرت کی بھی حوصلہ افزائی کرے گا تاہم دوسری جانب فلسطینی عوام نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔