اس سے قبل بشارالاسد کے والد حافظ الاسد کے ساتھ سنہ 2000 میں بل کلنٹن نے جنیوا میں ملاقات کی تھی اور اس وقت کے بعد سے کسی بھی امریکی صدر نے شامی رہنما سے ملاقات نہیں کی۔
صدر ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ وہ ترکیہ اور سعودی عرب میں ان کے اتحادیوں کے مطالبے پر بشارالاسد دور کی ’سفاکانہ‘ پابندیاں ہٹا رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ شام کے لیے چمکنے کا وقت ہے اور پابندیاں نرم کرنے سے اس کو اچھے مواقع ملیں گے۔
شامی شہریوں کی جانب سے اقدام کو سراہا جا رہا ہے اور درجنوں کی تعداد میں خواتین اور بچے دمشق میں امایاد سکوائر پر جمع ہو رہے ہیں۔
33 سالہ سکول ٹیچر ہُدیٰ قیصر کا کہنا تھا کہ ’میں بہت خوش ہوں، اس فیصلے کے پورے ملک پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ کام شروع ہوں گے، لوگ گھروں کو لوٹیں گے اور مہنگائی میں کمی ہو گی۔‘
امریکہ نے خانہ جنگی کے دوران شام پر پابندیاں عائد کی تھیں (فوٹو: اے ایف پی)
شام کی وزارت خارجہ کی جانب سے صدر ٹرمپ کے فیصلے کو ’انتہائی اہم موڑ‘ قرار دیا گیا ہے جس سے استحکام میں مدد ملے گی۔
امریکہ نے شام میں خانہ جنگی کے دوران ملک پر پابندیاں عائد کی تھیں اور مالی لین دین پر بھی پابندی لگائی تھی اور واضح بھی کیا تھا کہ جب تک بشارالاسد کو ان کے جرائم کے لیے جوابدہ نہیں ٹھہرایا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ امریکہ شام کو اس کی بلیک لسٹ سے بھی نکال دے گا جس میں اس کو فلسطینی عسکریت پسندوں کی حمایت پر 1979 میں ڈالا گیا تھا اور یہ چیز سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
اسی طرح دوسری مغربی طاقتیں پہلے سے ہی شام پر سے پابندیاں ہتا چکی ہے جن میں یورپی یونین بھی شامل ہے، تاہم امریکہ اپنی شرائط پر سختی سے قائم رہا تھا۔
جو بائیڈن انتظامیہ کے اہم نمائندے نے بھی دسمبر میں دمشق میں احمد الشرع سے ملاقات کی تھی اور اقلیتوں کے تحفظ سمیت کچھ دوسرے وعدے بھی کیے تھے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران شام میں اقلیتی گروپس پر کئی حملے ہوئے جبکہ اسرائیل کی جانب سے بشارالاسد کے دور حکومت کے دوران بھی اس کے بعد بھی بمباری کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
اسرائیل احمد الشرع کے دور میں کسی تبدیلی کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہے اور اپنے دیرینہ مخالف کی فوجی صلاحیت کو کم کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔