ذرا تصور کریں کہ اگر آپ کو سو دن تک ہر روز لکھنا پڑ جائے تو کیا ہو؟
ریاض میں عربی لکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے ایک سو دن تک روزانہ لکھنے کے چیلنج کو قبول کیا ہے اور ہر سطح کے لکھاریوں سے کہا ہے کہ وہ ایک ہی وقت پر روازنہ لکھیں اور لکھنے کے لطف کا پھر سے لطف لیں۔
مزید پڑھیں
-
عربی ادب، جس میں محبت غالب نظر آتی ہےNode ID: 742996
’لکھائی کے سو دن‘ کا انیشٹیو، سوشل میڈیا کے دباؤ سے دور، سوچ بچار کا موقع دیتا ہے، مستقل مزاجی کا سبب بنتا ہے اور اظہار کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد الضبع، جو لکھاریوں کی کمیونٹی کے بانی ہیں، کہتے ہیں ’جو کوئی بھی سوچ و فکر کرنا چاہے، لکھنا اس کے لیے لازمی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لکھنے کا عمل سوچ و فکر اور شفا کی ایک صورت ہے جو جذبات کو ترتیب کے ساتھ ظہور میں لاتا ہے اور لوگوں کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو بہتر سمجھ سکیں۔‘
’ذاتی طور پر بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آپ لکھ کر عمل میں لا سکتے ہیں۔ آپ غور کرتے ہیں، آپ شناخت کا تجزیہ کر کے اس کے نئی معانی نکالتے ہیں اور اپنے تجربات کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔‘
جوں جوں ایسے لکھاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، محمد الضبع کو معلوم ہو رہا ہے کہ عربی لکھنے والوں کو آن لائن پر کس طرح کے چیلنج درپیش ہیں۔
’ہمارے پاس وہ ڈھانچہ ہی نہیں جس کی مدد سے عربی کے لکھاری جدید ڈیجیٹل طریقے استعمال میں لا کر لکھ سکیں اور اپنے کام کو شائع کر کے قارئین تک پہنچ سکیں۔‘

ان کا کہنا ہے ’بہت سے لکھنے والوں کو ایسی خدمات پر انحصار کرنا پڑتا ہے جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دستیاب ہیں، جیسے نیوز لیٹر پلیٹ فارم، یا غیر معین اور بے نام ویب سائٹ بنانے والے۔ عربی زبان میں مستقل بنیادوں پر اعلٰی درجے کے مواد کی توقع بے سُود ہے جب تک کہ ایک ایسا موثر نظام موجود نہ ہو جو لکھنے والوں کو بہتر کارکردگی کی ترغیب دے۔‘
چنانچہ اس ضروت کو پورا کرنے کے لیے کمیونٹی نے خود ایک حل نکالا ہے جو ’کتابہ‘ کہلاتا ہے۔
یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو خاص طور سے عربی لکھنے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کے ذریعے لکھاری اپنا کام شائع کرسکیں گے، ذاتی ویب سائٹ بنا سکیں گے اور مستقبل میں اپنی تحریروں سے مالی منفعت حاصل کر سکیں گے ۔‘
اس طرح کے اقدامات کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لکھاری وہ کہانیاں سنا سکتے ہیں جن کی جڑیں وہیں پہ ہیں جہاں یہ کہانیاں جنم لیتی ہیں اور اس طرح یہ لکھاری مملکت کے ادبی اور ثقافتی منظرنامے کو نئی شکل دینے میں مدد دے سکتے ہیں۔

لکھنے والوں کی کمیونٹی، تجربہ کار لکھاریوں کے ساتھ ساتھ نوآمیزوں کو بھی بھر پور شرکت کا موقع دیتی ہے۔
’ہم یہ نہیں چاہتے کہ یہاں صرف مشّاق لکھنے والے ہوں جنھوں نے پہلے ہی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیا ہے۔ اس کمیونٹی کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کوشش کریں اور سیکھیں۔‘
حنین شاہین جو کمیونٹی کی رکن ہیں کہتی ہیں کہ ’یہ طبقہ ان فورمز کے بجائے متبادل ماحول فراہم کرتا ہے جن پر ہم برسوس پہلے لکھا کرتے تھے۔ آپ یہاں مستقلاً صرف لکھ ہی نہیں رہے ہوتے بلکہ ان لوگوں کا فیڈ بیک بھی لے رہے ہوتے ہیں جن کا ادبی ذوق پختہ ہوتا ہے اور وہ متنوع پس منظر سے آتے ہیں۔ چنانچہ آپ کے کام کو ایک وسیع نقطۂ نظر مل جاتا ہے۔‘
لانا الصفدی بھی اس کمیونٹی کی رکن ہیں اور کہتی ہیں ’لکھنے کی وجہ سے مجھے خود کو بہتر طور پر جاننے کا موقع ملا ہے اور میں اپنے جذبات کو واضح انداز میں مرتب کر سکتی ہوں۔مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میں کوئی ایسا کومنٹ کروں جس سے کسی کو اچھا خیال مل سکے یا بہتر نصیحت حاصل ہو، خواہ اس کی نوعیت ذاتی ہو یا اس کا تعلق کام سے ہو۔
’لکھائی کے سو دن‘ بڑا چیلنج تو ہو سکتا ہے لیکن ریاض میں بہت سے لکھنے والوں کے لیے یہ تو ایک ابتدا ہے۔