Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

سعودی عرب کے سکولوں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیسے ہو رہا ہے؟

مصنوعی ذہانت، ٹیکنالوجی کلاس رُومز کی ہیئت کو تبدیل کر رہی ہے (فوٹو: روئٹرز)
جیسے جیسے سعودی عرب وژن 2030 کی طرف بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، مصنوعی ذہانت مملکت میں تعلیمی اصلاحات کا بنیادی اور لازمی حصہ بن چکی ہے۔
مملکت بھر میں مصنوعی ذہانت، ٹیکنالوجی کلاس رُومز کی ہیئت کو تبدیل کر رہی ہے، طلبا کی ضرورت کے مطابق انھیں پڑھایا جا رہا ہے۔
سکولوں کے انتظامی امور زیادہ کارگزار بن رہے ہیں اور طالب علموں کو ان کی تمام تر صلاحیتیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تعلیم کے نئے طریقوں سے مصروف رکھا جا رہا ہے۔
عبداللہ محمد نے جو امام محمد ابنِ سعود اسلامی یونیورسٹی میں قانون کے طالب علم ہیں، عرب نیوز کو بتایا کہ ’مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی نے مجھ سمیت بہت سے طلبا کی مطالعے کی طرف رسائی اور کورس ورک کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے تعلیم دینے کا طریقہ اور مطالعے کی ایپلیکیشنز نے تعلیم کو زیادہ کارگزار کر دیا ہے اور اس کی رسائی انسانی ضرورت کے مطابق اور آسان ہوگئی ہے۔
عبداللہ محمد کے مطابق ’مصنوعی ذہانت کے آلات نے ان کی آموزش کے تجربے کو بدل دیا ہے لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس معاملے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔‘
وہ کہتے ہیں’مصنوعی ذہانت کے کچھ آلات فوری حل مہیا کر دیتے ہیں لیکن ان میں گہرائی نہیں ہوتی۔ لہذا اگر میں محتاط نہیں ہوں گا تو مجھ سے اس آموزش کا تنقیدی زاویہ رکھنے والا حصہ چھوٹ سکتا ہے۔
تاہم عبداللہ محمد کا کہنا ہے کہ’ بالآخر انھیں یہ اعتماد ہے کہ مصنوعی ذہانت نے ملازمت کے لیے انھیں بہت بہتر طور پر تیار کیا ہے۔‘
کنگ فہد یونیورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور تعلیمی کمپیوٹنگ کے پروفیسرعبدالرحمن المطرف کہتے ہیں کہ ’وژن 2030 اور مصنوعی ذہانت کے درمیان سٹریٹیجک موافقت بہت واضح ہے۔‘

۔ ایک بڑی رکاوٹ عربی زبان میں مواد کا آن لائن نہ ہونا ہے (فوٹو: عرب نیوز)

انھوں نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’مصنوعی ذہانت وژن 2030  کے مقاصد کی تکمیل میں تعاون کرتی ہے۔ یہ انسانی ضرورت کے مطابق آموزش فراہم کرتی ہے، وسائل کا بہترین انتظام رکھتی ہے اور آپ کہیں پر بھی ہوں، آپ کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی مل جاتی ہے۔ یہ نظام تعلیمی سیشن کے دوران ہی طلبا کی کارکردگی کا تجزیہ کر سکتا ہے اور معلموں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ انفرادی ضرورت کو دیکھتے ہوئے تعلیمی ہدایات دیں۔ اس سے طلبا اچھے نتائج پیدا کرتے ہیں اور مملکت کے اس مشن میں تعاون کرتے ہیں جس کے تحت مستقبل کے لیے ہر طرح سے لیس کارکنوں کو تیار کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ’ مصنوعی ذہانت وژن 2030 کے اس عزم کو بھی تقویت پہنچاتی ہے کہ خوبیوں، دسترس اور دور دارز کمیونٹی تک پہنچ کر اور سپیشل ضرورت والے طلبا تک رسائی حاصل کر کے عمر بھی کی آموزش پر توجہ دی جائے۔‘
سعودی عرب کے متنوع تعلیمی منظرنامے میں ٹیکسٹ کو پڑھنے کے لیے بولنے والا سافٹ ویئر، ایسے انٹرفیس جنھیں اخیتار کرنا آسان ہے اور آموزش کے دوران ہی تعلیمی سطح کا جائزہ، ان طلبا کے لیے نئی راہیں کھول رہا ہے جو کسی عذر کا شکار ہیں۔

مصنوعی ذہانت ایک فعال تعلیمی نظام کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے (فوٹو: عرب نیوز)

ان جدتوں سے نہ صرف تعلیمی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ اس سے سیکھنے والوں کے اندر مستقل طور پر تعلیم کے ساتھ جڑے رہنے کی ترغیب اور دلچسپی بھی بڑھ جاتی ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود مصنوعی ذہانت اساتذہ کی جگہ نہیں لے رہی۔ یہ صرف ان کے کردار کی از سرِ نو تعریف طے کر رہی ہے۔
لیکن ابھی کئی چیلنج باقی ہیں۔ ایک بڑی رکاوٹ عربی زبان میں مواد کا آن لائن نہ ہونا ہے۔ آن لائن موجود عربی زبان میں دستیاب مواد، عالمی ڈیجیٹل وسائل کا صرف ایک اعشاریہ دو فیصد ہے۔ اس سے مصنوعی ذہانت کے نظاموں کا موثر ہونا متاثر ہوتا ہے کیونکہ زیادہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا۔
تاہم مصنوعی ذہانت کو غوروفکر سے استعمال کر کے سعودی عرب کے پاس ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اعلیٰ ترین آموزش اور طلبا کی ضرورت کے مطابق تعلیم فراہم کرکے وژن 2030 کے اہداف کی طرف بڑھتا رہے۔
لیکن اس مستقبل کے حصول کے لیے صرف ٹیکنالوجی کافی نہیں۔ اس کے لیے سرمایہ کاری، باہمی رابطوں اور اس عہد کی بھی ضرورت ہے کہ جدت، فنِ تدریس اور پالیسی باہم مل جُل کر آگے بڑھائے جائیں گے۔
ایک پائیدار اور مستقل کوشش ہی سے، مصنوعی ذہانت ایک فعال اور مستقبل کے لیے تیار تعلیمی نظام کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔ ایک ایسا نظام جو تمام سیکھنے والوں کو ڈیجیٹل دور کے مواقع کے لیے تیار کرے۔

شیئر: