Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 12 جولائی ، 2025 | Saturday , July   12, 2025
ہفتہ ، 12 جولائی ، 2025 | Saturday , July   12, 2025
تازہ ترین

’پاکستان ہی آگے ہے‘، ’میم وار‘ کی کہانی جس کے انڈینز بھی معترف

دنیا بھر میں جب بھی کسی سرحد پر کشیدگی نے عوامی جذبات کو تاریکی میں دھکیلا تو ثقافت، آرٹ، ادب اور مزاح نے انسانیت کو جوڑے رکھنے میں ایک پُل کا کردار ادا کیا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران کارٹونز، طنزیہ نظموں، سٹریٹ تھیٹرز نے عوامی اضطراب کو کم کیا وہیں جنگ میں شریک سپاہیوں نے موسیقی اور خاکوں کے ذریعے ذہنی دباؤ کم کرنے کی کوشش کی۔ 
برصغیر میں بھی ثقافت نے کئی بار کشیدہ حالات میں انسان دوستی کو زندہ رکھا۔ 1971ء کی جنگ کے دوران پاکستان میں ٹیلی وژن پر مزاحیہ پروگرامز اور ریڈیو پاکستان پر طنزیہ ڈرامے عوام کو ہنسا کر تلخی کم کرتے رہے۔ انڈیا میں بھی شاعروں، ادیبوں اور فلمسازوں نے محبت اور بھائی چارے کے پیغامات پھیلانے کی کوششیں کیں۔
ممکنہ جنگ کے خدشات اور حالات کی کشیدگی کے دوران پاکستانی مزاحیہ اداکار معین اختر نے اپنے ابتدائی کیریئر میں طنز و مزاح کے ذریعے ماحول میں تلخی کم کرنے کی کوشش کی۔ ایسے ہی انڈیا میں مشہور شاعر راحت اندوری نے بھی اپنی شاعری میں محبت اور امن کا پیغام عام کیا۔

پاکستان اور انڈیا میں بڑھتی کشیدگی اور میمز کی ’جنگ‘

حال ہی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام علاقے میں ایک حملہ ہوا جس میں کئی افراد زخمی اور ہلاک ہوئے۔ انڈین میڈیا اور حکومتی بیانات نے فوری طور پر اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی محاذ آرائی تیز ہو گئی۔
جب سرکاری بیانات اور میڈیا رپورٹس سے ماحول مزید بوجھل ہوا تو پاکستانی عوام نے اپنا ردعمل انٹرنیٹ پر میمز کے ذریعے ظاہر کیا۔
سوشل میڈیا پر ایک صارف نے لکھا ’سلمان خان کی شادی پاکستان میں ندا یاسر کے شو میں ہوگی۔‘

ایک اور اکاؤنٹ سے میم شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا ’جنگ میرے گھر کے پاس رکھنا، امی نے سوسائٹی سے باہر جانے کو منع کیا ہے۔‘

پاکستان میں میمز کا طوفان اس شدت سے آیا کہ انڈین میں بھی پاکستان میں بنی میمز شیئر کی گئیں، جیسے اس میم میں دکھایا گیا کہ ’انڈیا پانی دو، آنکھ میں صابن چلا گیا ہے۔‘

ایک اور پوسٹ میں پاکستانی صارف نے لکھا ’ہم کاسٹ سے باہر جنگ نہیں کرتے۔‘

مہرین ثاقب لکھتی ہیں ’جنگ رات میں کرنا دن میں بہت گرمی ہوتی ہے۔‘

ایک اور ویڈیو میں کسی صارف نے کاغذ کے جہاز پر انڈین پائلٹ کی تصویر بنا کر ویڈیو شیئر کی اور کہا ’انڈین جہاز پاکستان میں دیکھا گیا۔‘
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by INSANE (@badtameeeeez)

یہ میمز جہاں پاکستان میں وائرل ہوئیں وہیں یہ انڈیا سمیت پوری دنیا میں بھی پھیلیں، یہاں تک کہ متعدد انڈین صارفین یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ ’یہ کتنی غیر سنجیدہ اور مزاحیہ قوم ہے، مہربانی کر کے کوئی ان کا انٹرنیٹ بند کرواؤ۔‘
پاکستان میں یہ سلسلہ گزشتہ دنوں سے چل رہا ہے اور اسے صرف عام عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی پذیرائی ملی جب گزشتہ روز پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری میم گیم بہت اوپر ہے، جو میمز پاکستان میں بن رہی ہیں وہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہم کتنے پرسکون ہیں کہ ہمیں پتا ہے کہ ہم محفوظ ہاتھوں میں اور ہماری افواج پاکستان طاقتور افواج ہے۔ میم گیم میں بھی پاکستانیوں نے سبقت حاصل کی ہے میں اس پر بھی سب کو سلام پیش کرتا ہوں۔‘
جیسے یہاں ایک صارف نے لکھا ’ہم میم وار جیت گئے۔‘
 

یہ میمز نہ صرف پاکستانی عوام کے دل کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بنیں بلکہ سیاسی کشیدگی کے دباؤ میں ایک اجتماعی نفسیاتی ’وینٹیلیشن‘ کا کام بھی کر رہی ہیں۔

کیا میمز ثقافتی سفارتکاری کا نیا ہتھیار ہیں؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میمز صرف تفریح ہیں یا یہ واقعی ثقافتی سطح پر تعلقات کو نرم کر سکتی ہیں؟
میمز بنیادی طور پر جدید عوامی اظہار کا حصہ ہیں۔ یہ اکثر تنازعات میں موجود تلخی کو ایک نرمی میں بدلنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، بشرط یہ کہ اس میں جنگی جنون کے اظہار سے گریز کیا جائے۔
اردو نیوز نے انٹرنیٹ پر متحرک کچھ میمرز سے بات کی جن کا یہ ماننا تھا کہ ’میمز کی صورت میں طنز اور مزاح عوامی سطح پر دشمنی کو ہوا دینے کے بجائے مکالمے کا راستہ کھلا رکھتے ہیں۔‘
اگرچہ سرکاری بیانات اور میڈیا جنگ کے نقارے بجاتے ہیں، مگر سوشل میڈیا پر چلنے والی ’میمز کی جنگ‘ یہ بتاتی ہے کہ عام عوام شاید اب مکمل جنگی بیانیے سے آگے بڑھ چکے ہیں۔
اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ میمز ایک طرف تو موجودہ تناؤ کا آئینہ ہیں، دوسری طرف ثقافتی مزاحمت اور امن کی خاموش کوشش بھی بن سکتی ہیں۔
شاید آج کے ڈیجیٹل دور میں میمز نہ صرف عوامی جذبات کا اظہار ہیں بلکہ وہ ایک نئی قسم کی ثقافتی سفارتکاری کا آغاز بھی ہیں۔

شیئر: