جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں خوراک کی کمی کے باعث بعض لوگوں نے پروٹین حاصل کرنے کے لیے سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع کر دیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کچھوے کا خول اتارنے کے بعد گوشت نکالا جاتا ہے اور پھر اسے پیاز، ٹماٹر اور مرچ مسالے ڈال کر پکایا جاتا ہے۔
ماجدہ قنان نے کہا کہ ’بچے کچھوے سے خوفزدہ تھے لیکن ہم نے انہیں بتایا کہ یہ بچھڑے کے گوشت کی طرح لذیز ہے۔ کچھ بچوں نے اسے کھایا اور کچھ نے انکار کر دیا۔‘
مزید پڑھیں
-
غزہ پر اسرائیلی جارحیت جاری، جمعہ کو 50 سے زائد فلسطینی شہیدNode ID: 888542
متبادل خوراک کی کمی وجہ سے 61 برس کی ماجدہ نے اپنی فیملی کے لیے تیسری مرتبہ کچھوے کا گوشت پکایا جو بے گھر ہو چکی ہیں اور خان یونس میں ایک ٹینٹ میں رہتی ہیں۔
18 کی ماہ تباہ کن جنگ اور اسرائیل کی طرف سے امداد روکنے کے بعد اقوام متحدہ نے شدید انسانی بحران کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ جبکہ اسرائیل نے خوراک نہ پہنچنے کا ذمہ دار حماس کو ٹھہرایا ہے جو اس سے انکاری ہے۔
انسانی امداد فراہم کرنے والی 12 تنظیموں کے سربراہان نے جمعرات کو خبردار کیا کہ ’قحط ایک خطرہ نہیں ہے بلکہ علاقے میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔‘
ماجدہ نے کہا کہ ’راستے بند ہیں اور مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے سبزی کے دو چھوٹے تھیلے خریدے لیکن گوشت دستیاب نہیں تھا۔‘
سمندری کچھوؤں کو بین الاقوامی سطح پر محدومیت کا شکار سمجھا جاتا ہے لیکن غزہ میں انہیں کھایا جا رہا ہے۔
مچھیرے عبدالحلیم کا کہنا تھا کہ ’ہم کبھی کچھوؤں کو کھانے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو خوراک کی قلت پیدا ہونے لگی۔ مرغی یا دوسرا گوشت دستیاب نہیں ہے اور کچھوے کا گوشت پروٹین حاصل کرنے کا متبادل ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کے ریجنل چیف حنان بلکھی نے جون میں کہا تھا کہ غزہ کے کچھ لوگ دوسرے جانوروں کا گوشت اور گھاس کھا رہے ہیں اور گندا پانی پی رہے ہیں۔
حماس نے جمعرات کو اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ غزہ کے لوگوں کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
مچھیرے عبدالحلیم نے کچھوؤں کو حلال طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔’اگر قحط نہ ہوتا تو ہم اسے نہ کھاتے اور چھوڑ دیتے، لیکن اب یہی پروٹین حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘