مذہبی اور نسلی اعتبار سے متنوع ملک میں شام کے نئے حکمرانوں کے سامنے سکیورٹی کی صورتحال کو قابو کرنے کا بڑا چیلنج ہے جس میں سابق اسلام پسند باغیوں کا علاقہ بھی شامل ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق الاویت کے ساحلی علاقے، شمالی مشرق میں کُردوں کے ساتھ جاری مذاکرات، دُروز میں بڑھتے تناؤ اور جنوب میں اسرائیل کی بڑھتی مداخلت سمیت نئے حکمرانوں کے سامنے چیلنجز کا پہاڑ کھڑا ہے۔
دسمبر میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد رواں ہفتے بحیرہ روم کے ساحل پر بدترین تشدد شروع ہوا جس میں سابق اور موجودہ حکومت کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب کی جانب سے شام میں سکیورٹی فورسز پر حملے کی مذمتNode ID: 886886
-
او آئی سی نے 13 سال بعد شام کی رکنیت بحال کردیNode ID: 886926
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق 311 شہریوں سمیت پانچ سو افراد ہلاک ہوئے۔ یہ علاقہ الاویت اقلیت کا گڑھ ہے جس سے بشارالاسد اور ان کے خاندان کا تعلق ہے۔
شام کے شمالی اور شمال مشرقی علاقے کُردوں کے زیر کنٹرول ہیں جنہوں نے ہتھیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں، جبکہ عبوری صدر احمد الشرع نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام مسلح گروپ ہتھیار ڈال کر شام کی نئی فوج میں شام ہو جائیں اور کُردوں کی خود مختاری کو رد کیا ہے۔
دونوں اطراف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جبکہ ترکیہ کے حمایتی کُردوں کی نومبر سے دیگر کُردوں کے ساتھ جھڑپیں جاری ہیں۔
دُروز کے لوگوں کا تعلق شیعہ اسلام سے ہے جو شام کا تین فیصد ہیں۔ شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران دُروز فورسز نے اپنی توجہ اپنے علاقے کا دفاع کرنے پر مرکوز رکھی اور شام کی مسلح افواج میں شامل ہونے سے گریز کیا۔
دُروز کے دو اہم مسلح گروہوں نے نئی فوج میں شامل ہونے کی رضامندی ظاہر کی ہے لیکن ابھی تک ہتھیار نہیں ڈالے۔
شام کے طاقتور پڑوسی اسرائیل نے اس علاقے میں داخل ہونے کوشش کی ہے اور اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے شام کو خبردار کیا کہ ’دُروز کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے مطالبہ کیا ہے کہ جنوبی شام کو مکمل طور پر غیر فوجی بنا دیا جائے، جبکہ اسرائیلی فورسز نے شام پر بار بار بمباری کی ہے اور گولان کی پہاڑیوں پر اقوام متحدہ کے گشت والے بفر زون میں منتقل ہو چکی ہے۔