بڑی سکرین پر بہت سے نئے چہروں کو شناخت دینے والے معروف ہدایت کار اور پروڈیوسر آغا حسن عسکری 78 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔
لاہور کے شیخ زید ہسپتال کی انتظامیہ نے پیر کے روز ان کی موت کی خبر دی جہاں وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہونے کے باعث زیرِعلاج تھے۔
مزید پڑھیں
-
’یہ لڑکی پہلی نظر میں تو مدھو بالا لگتی ہے‘Node ID: 438236
-
گنڈاسے نے ڈرائنگ روم کامیڈین کو ’سلطان راہی‘ بنا دیاNode ID: 452136
-
فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ لکس ایوارڈ میں بھی نامزدگیوں سے محرومNode ID: 794601
آغا حسن عسکری کا شمار ان فلمی ہستیوں میں کیا جاتا ہے جن کے دم سے اسی اور نوے کی دہائی میں فلمی صنعت نے اپنا عروج دیکھا مگر آغا حسن عسکری ہی سلطان راہی اور وحشی جٹ بنانے والوں میں شامل تھے جس کے باعث فلموں میں گنڈاسہ کلچر کو فروغ حاصل ہوا۔
آغا حسن عسکری کی پہلی فلم ’خون پسینہ‘ تھی جو انہوں نے 1972 میں بنائی۔ اس فلم کی کاسٹ میں مرکزی کردار لالہ سدھیر اور فردوس کا تھا جبکہ اس فلم میں سلطان راہی بھی جلوہ گر ہوئے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ سلطان راہی کو سلطان راہی بنانے والے آغا حسن عسکری تھے۔
پاکستان کی شوبز انڈسٹری کو پچھلی چار دہائیوں سے رپورٹ کرنے والے سینئر صحافی طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ ’میرا آغا صاحب سے پینتیس سال پرانا تعلق تھا۔ ان کے ہاتھوں میں جادو تھا۔ کسی کردار کو اٹھاتے تھے تو آسمان پر پہنچا دیتے تھے۔ سلطان راہی، مصطفٰی قریشی، انجمن اور بابرہ شریف پاکستان کی فلم انڈسٹری کے وہ نام ہیں جنہیں بڑے پردے پر آغا حسن عسکری نے متعارف کروایا تھا۔‘
فلمی شعبے سے وابستہ ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ جب پنجابی فلموں میں مار دھاڑ کے کلچر کا آغاز ہوا تو اس کے بانی بھی آغا حسن عسکری ہی تھے۔
طاہر سرور میر بتاتے ہیں کہ ’ان کی پہلی فلم وحشی جٹ تھی جس نے پنجابی سنیما میں ہلچل پیدا کی لیکن اس میں کئی چیزیں رہ گئی تھیں۔ بعد میں جب ناصر ادیب اپنی کہانی لے کر سٹوڈیوز کے چکر لگا رہے تھے تو آغا صاحب نے اس کہانی پر فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور پھر مولاجٹ کا ظہور ہوا۔
