اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اس کی وجہ ان کا ایک بیان بنا ہے جو انہوں نے افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے دیا ہے۔
منیر اکرم نے یہ بیان اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین پر لگنے والی پابندیوں کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ پشتونوں کے کلچر سے ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی ایجنسی کے تحت افغانستان میں 30 لاکھ ڈالر کا امدادی سامانNode ID: 736461
-
افغانستان: یونیورسٹی کے داخلہ امتحان، لڑکیوں پر پابندیNode ID: 738511
ان کے اس بیان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ پاکستان کے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زردای سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا منیر اکرم کا بیان پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہے؟
اُسامہ خلجی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’اقوام متحدہ میں مستقل مندوب (پاکستان کی) انتہائی مایوس کن نمائندگی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پشتون کلچر نہیں بلکہ یہ طالبان کلچر ہے جس کے خلاف پشتون دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔‘
Extremely embarrassing representation by @PakistanPR_UN. Ban on education of girls is not Pashtun culture, it’s Taliban culture that Pashtuns have fought against for decades.
Is this terrible racism state policy @ForeignOfficePk @BBhuttoZardari @HinaRKhar? pic.twitter.com/03bORVgid0— Usama Khilji (@UsamaKhilji) February 2, 2023
صحافی زیب النسا برکی نے منیر اکرم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کے دفتر خارجہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا یہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن ہے کہ پشتون کلچر کا مطلب یہ ہے کہ خواتین گھر پر رہیں؟‘

کاروباری شخصیت مصدق ذوالقرنین نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کی جانب سے کیا شرمناک اور مکمل غلط پوزیشن لی گئی ہے۔ طالبان پشتون کلچر کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’حکومت کو نہ صرف اپنے نمائندے کا یہ بیان واپس لینا چاہیے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے پشتونوں سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔‘

ماہر اقتصادیات اور کالم نویس یوسف نذر نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ منیر اکرم کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے مستقل مندوب کی نشست سے ہٹایا جائے۔












