Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
منگل ، 10 جون ، 2025 | Tuesday , June   10, 2025
منگل ، 10 جون ، 2025 | Tuesday , June   10, 2025

’لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پشتون کلچر کا حصہ نہیں،‘ پاکستانی سفیر تنقید کی زد میں

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اس کی وجہ ان کا ایک بیان بنا ہے جو انہوں نے افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے دیا ہے۔
منیر اکرم نے یہ بیان اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں خواتین پر لگنے والی پابندیوں کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ پشتونوں کے کلچر سے ہے۔
ان کے اس بیان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ پاکستان کے دفتر خارجہ اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زردای سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا منیر اکرم کا بیان پاکستان کی پالیسی کا حصہ ہے؟
اُسامہ خلجی نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’اقوام متحدہ میں مستقل مندوب (پاکستان کی) انتہائی مایوس کن نمائندگی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی پشتون کلچر نہیں بلکہ یہ طالبان کلچر ہے جس کے خلاف پشتون دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔‘
صحافی زیب النسا برکی نے منیر اکرم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کے دفتر خارجہ کو وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا یہ پاکستان کی سرکاری پوزیشن ہے کہ پشتون کلچر کا مطلب یہ ہے کہ خواتین گھر پر رہیں؟‘

کاروباری شخصیت مصدق ذوالقرنین نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کی جانب سے کیا شرمناک اور مکمل غلط پوزیشن لی گئی ہے۔ طالبان پشتون کلچر کی نمائندگی نہیں کرتے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’حکومت کو نہ صرف اپنے نمائندے کا یہ بیان واپس لینا چاہیے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے پشتونوں سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔‘

ماہر اقتصادیات اور کالم نویس یوسف نذر نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ منیر اکرم کو فوری طور پر اقوام متحدہ کے مستقل مندوب کی نشست سے ہٹایا جائے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ’نسل پرستی کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی ہونی چاہیے۔‘

شیئر: