پاکستان کے چھٹے بڑے شہر پشاور کی پولیس لائنز مسجد میں دھماکے کو تیسرا روز ہے لیکن اس میں ہونے والے جانی نقصان اور پیاروں کے ذکر نے ٹائم لائنز کو اب بھی افسردہ کر رکھا ہے۔
دھماکے اور اس میں ہونے والے نقصان پر تبصروں میں کہیں غم واضح ہے تو کوئی بےبسی کے نوحے لکھ رہا ہے۔ کہیں حکمرانوں سے گلہ اور کہیں دن نہ بدلنے کا شکوہ ہے، کوئی جواں اموات کے پیاروں پر اثرات کو موضوع بنائے ہوئے ہے تو کوئی حملہ آوروں اور حالات یہاں تک پہنچانے کے ذمہ داروں کو کوس رہا ہے۔
مزید پڑھیں
اسی دوران کچھ ٹویپس نے اپنے ہم جولیوں، ہم جماعتوں اور ان کی یادوں کا ذکر کیا تو اسے دیکھنے اور پڑنے والے درد اور کرب کو محسوب کیے بغیر نہ رہ سکے۔
محمد داود خان نے لکھا کہ ’ہمارے گاؤں کے ابن امین اور افتخار پشاور میں ڈیوٹی پر تھے۔ پشاور دھماکے میں میں تین دوست کھوئے ہیں۔‘
Another tragic news. We lost Ibin-e-Amin and Iftikhar from our village. Both were on duty in Peshawar. In Peshawar blast I lost three schools friends. Rest in Peace. pic.twitter.com/YtbzPJ2jRo
— Muhammad Daud Khan (@daudpasaney) January 30, 2023
عرفان اللہ جان نے بھی اپنے گاؤں کے ایک پولیس اہلکار کی تصویر کی جو اب ان کے ساتھ نہیں رہے۔

اہلخانہ اور احباب ہی نہیں دھماکے کے متاثرین کا علاج کرنے والا عملہ بھی صورتحال دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا تو اس کا اقرار بھی کیا۔
ڈاکٹر طاہر خان نے اپنے زیرعلاج رہنے والے ایک زخمی کا تذکرہ کیا تو لکھا کہ ’انہیں بچانے کی ہر ممکن کوشش کر کے ہم کسی معجزہ کے منتظر تھے۔ ان کے وہ آخری لمحات جب وہ زندگی کے لیے پکار رہے تھے بھلائے نہیں جا سکتے۔‘
زخمی پولیس افسر کو مہیا کیے گئے علاج کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ ’میں اس فرد کے لیے روتا رہا۔‘

صحافی ایاز گل نے جانبر نہ ہونے والے پولیس افسر کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’وہ میرے کزن تھے 42 برس کے تھے۔ ذہین، بہادر اور دیانتدار افسر تھے انہوں نے پسماندگان میں پانچ بچے چھوڑے ہیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’چند روز قبل بھی پشاور کے قریب ان کے پولیس سٹیشن پر حملہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے۔‘

پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ متعدد غیرملکی ٹوئٹر صارفین نے دھماکہ میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا تو جانے والوں اور متعلقین کو یاد کرنے کا اقرار بھی کیا۔

اتنے بڑے واقعہ کے باوجود کچھ لوگوں کے رویوں سے صارفین کو بے حسی کا شائبہ ہوا تو یہ تذکرہ بھی ٹائم لائنز کا حصہ بنا۔












