Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعہ ، 04 جولائی ، 2025 | Friday , July   04, 2025
جمعہ ، 04 جولائی ، 2025 | Friday , July   04, 2025

سعودی عرب کا یومِ تاسیس: اہم اور تاريخی اعلان

ہم آج جس مقام پر ہیں وہ اس ملک کی تاسیس کی برکت کی وجہ سے ہے:ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزيز
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی جانب سے 22 فروری کو ’قومی یوم تاسیس‘ کے طور پر منانے کا اعلان تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اعلان کے بعد ہر سال 22 فروری کو قومی دن کی حیثیت سے منایا جائے گا۔ 
 ہر قوم، تہذیب اور معاشرہ اپنی تاریخ کا اہتمام کرتا ہے کیونکہ ایسے مواقع قوموں کی زندگی میں خاص معانى ومقاصد رکھتے ہیں۔ یوم تاسیس منانے کا  فیصلہ دانشمندی اور حکمت پر مبنی ہے جس کے ذریعے نئی نسل کو اس مملکت کی بنیاد اور اس کے بانیان کو جاننے کا موقع ملے گا۔
ہم آج جس مقام پر ہیں وہ  اس ملک کی  تاسیس کی برکت کی وجہ سے ہے، اللہ کا  شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایسی نعمتوں سے نوازا  جن سے ہم محظوظ ہو رہے ہیں۔
پہلی سعودی ریاست کے بانی امام محمد بن سعود رحمہ اللہ  کو کئی اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں، ان میں سرفہرست اس ملک کو متحد کرنا، امن و سلامتی کا قیام، استحکام، ملکی معاملات اور توحید کا پرچار کرنا شامل ہیں، ان کی مزید اہم کامیابیوں میں مکہ و مدینہ میں حرمین شریفین کا بہت زیادہ خیال رکھنا اور عازمین حج وعمرہ اور زائرین کے لیے سفری راستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا شامل تھا۔ موجودہ نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس یوم تاسیس کی مناسبت سے ملک کے اُن حکمرانوں کے بارے میں جانیں جو اس ملک کے قیام سے لے کر آج تک خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
مملکت کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کا تعلق ایسے گھرانے سے ہے، جہاں متقدمین اور متآخرین  میں سخاوت ہمیشہ مشترک رہی ہے۔ اگر ان پر کوئى احسان ہوتا ہے تو اس کا بہتر بدلہ دیتے ہیں، وعدہ کرتے ہیں تو پورا کرتے ہیں اور انہوں نے مکارم اخلاق اور قابل فخر کاموں کو نسل درنسل پایا ہے۔ یہ لوگ معزز حسب ونسب والے اور اوّل درجے کے خوددار لوگ ہیں۔ 
 یوم تاسیس کیا ہے؟ یہ وہ تاریخی دن ہے جب اس ملک کے بانی امام محمد بن سعود نے پہلی سعودی مملکت کی بنیاد رکھی جس کی تاریخ تین صدیوں سے زیادہ پر محیط ہے۔ یوم تاسیس ایک یادگار دن ہے جو نہ صرف  مملکت سعودی عرب بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہے۔  یہ ملک  اللہ کی وحی کی نزول گاہ، عالم اسلام کے لیے سمتِ کعبہ اور مناسک حج و عمرہ کا مقام ہے۔ ریاست کی تاریخ پہلے سعودی عہد سے لے کر دوسرے عہد کے قیام یعنی امام ترکی بن عبداللہ کے دور تک پیلی ہوئی ہے۔
ہمارے ملک کی بنیاد اصول اور قوانین ہیں، اس کا دستور کتاب و سنت پر مبنى ہے۔ اس ملک میں اللہ کی شریعت کا نفاذ، حرمین شریفین کی حفاظت اور الله  کے مہمانوں (زائرینِ حج و عمرہ) کی خیال رکھا جاتا ہے، اس لیے مملکت سعودی عرب اپنی پوری تاریخ میں نہ تو کبھی ڈوبی اور نہ ہی  تاریخ اور جغرافیہ کے نقشہ پر اچانک نمودار ہونے والی کوئی ہنگامی ریاست بنی۔ اس ریاست کی ایسی بنیادیں ہیں جن پر اس کی جدید تاریخ میں جزیرہ نما عرب کے لوگوں کا اتحاد قائم ہوا، جو کئی دہائیوں تک تقسیم، انتشار، جھگڑوں اور تنازعات کی ہولناکیوں سے دوچار تھے۔
یومِ تاسیس کا شاہی فرمان اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مملکت سعودی عرب اپنی تاریخ کا بہت زیادہ اہتمام کرتی ہے، جس کا ماضی اس کے حال اور مستقبل سے مربوط ہے۔ جن قوموں کا ماضی اور تاریخ نہیں ہوتی اُن کا نہ کوئی حال ہوتا ہے اور نہ ہی مستقبل۔ دنیا کی ہر قوم کو اپنی تاریخ پر فخر کرنے کا حق ہے لہٰذا مملکت سعودی عرب کے عوام کا حق ہے کہ اس شاندار تاریخی دن کو منانے اور اپنی نسلوں کو اس کی یاد دلانے پر فخر کریں۔ 
یومِ تاسیس کا اعلان دراصل امام محمد بن سعود رحمہ اللہ، امام ترکی بن عبداللہ، امام عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن اور ان کے نیک فرزند خادم حرمین شریفین  اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان  کےاس روشن و شاندار عہد تک ایک عظیم جدید ریاست کی تعمیر اور اہم تہذیبی، ترقیاتی اور عالمی منصوبوں کے سفر کی تکمیل کا اعلان ہے، جس کے لیے سب ایک ہی انداز میں مثالی  طور پر کام کررہے ہیں جس سے جزیرہ نما عرب صدیوں تک واقف نہیں تھا۔
آج ہمیں اپنی تاریخ کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ملک عبدالعزیز ادارہ براۓ تحقیق و آرکائیو، مؤرخین اور اس ملک کے متعلقہ افراد پر مشتمل اعلیٰ سطحی بین الوزارتی کمیٹیاں بنائی جائیں، مُختلف آگاہی تقریبات منعقد کی جائیں تاکہ سعودی طلبا اور نئی نسل سمیت سعودی قومی اقدار کو عالم اسلام اور پورے عالمِ انسانیت کے عوام کے دلوں میں راسخ کیا جائے۔

شیئر: