انگلینڈ اور انگلش اردو میں انگلستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شعر بالا نامعلوم شاعروں کے مقبول عام اشعار میں سے ایک ہے، شعر کا پہلا لفظ ’فانوس‘ ہے، جس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذکر سے ہی فانوسِ خیال بھی روشن ہوجاتا ہے۔ قبل اس کے کہ لفظ ’فانوس‘ پر روشنی ڈالیں، یہ سمجھ لیں کہ ’فانوس‘ شیشے کا بنا ہوا شمع پوش ہوتا ہے، جس میں کبھی شمع جھلملاتی تھی اور اب برقی قمقمے جگمگاتے ہیں۔
اوقیانوس اور دقیانوس کی طرح ’فانوس‘ بھی یونانی زبان کا لفظ ہے، ماہرین زبان کے مطابق ’فانوس‘ کا اصل لفظ ’فانس‘ ہے، ’فانس‘ کے معنی ’شفاف‘ کے ہیں۔ ’فانس‘ سے ’فانوس‘ بننے کا سفر ان شفاف شیشوں کے طفیل ہے، جن کی شفافیت شمع کی روشنی بڑھاتی ہے۔
درج بالا شعر میں ایک لفظ ’ہوا‘ بھی ہے، اس ہوا کی اصل سنسکرت کا وایو/वायु ہے، جو پنجابی میں پہنچ کر ’وا‘ رہ گیا ہے، تاہم اپنی اصل سے قریب ہے۔ خیر ’ہوا‘ فارسی اور ترکی زبان میں بھی ’ہوا‘ ہی ہے، چوں کہ جہاز ہوا کے دوش پر اُڑتا ہے اس لیے ایئرلائن کو ترکی زبان میں ’ہوا یولری‘ کہتے ہیں۔
اردو میں ’ہوا‘ سے ’ہوائی جہاز‘ کی ترکیب ہے، مگر عربی نے اس جہاز کا تعلق ’ہوا‘ سے جوڑنے کے بجائے ہوا میں اڑتے پرندے سے جوڑا ہے۔ یوں عربی میں پرندہ اگر طائر ہے ہوائی جہاز طیارہ ہے۔ پھر ہوائی جہاز سے متعلق پرندے کا تصور صرف عربی تک محدود ہے، اس لیے کہ فرانسیسی زبان ہوائی جہاز کے لیے مستعمل لفظ avion کا جُز اول avi لاطینی زبان کا ایوس (avis) ہے، جس کے معنی پرندے کے ہیں۔ پھر اسی ایوس کو آپ کو فرانسیسی ایوی اوں کے علاوہ انگریزی کے ایوی ایشن میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
خیر عربی اور فرانسیسی میں پرندے کی نسبت سے ہوائی جہاز کے لیے طیارہ اور ایوی اوں کا لفظ انوکھی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں انسانوں کا مظاہر فطرت کے حوالے سے مشاہدہ ہمیشہ ایک سا رہا ہے۔ اس بات کو انگریزی محاورے birds of a feather flock together سے بھی سمجھا جاسکتا ہے، جو فارسی میں ’کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز، کبوتر بہ کبوتر باز بہ باز‘ کا مفہوم لیے ہوئے ہے۔
ترکی اور فرانسیسی زبان کے ذکر کے ساتھ اب لفظ ’بُغچَہ‘ پر غور کریں۔
ہوائی جہاز سے متعلق پرندے کا تصور صرف عربی تک محدود ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
اردو میں ’بُغچَہ‘ کپڑوں کی گٹھری کو کہتے ہیں، اردو میں یہ لفظ ترکی زبان سے آیا ہے، ترکی میں اس کی صورت ’بُقچَہ‘ ہے، یعنی اس میں حرف ’قاف‘ ہے، جو صوتی تبدیلی کے زیر اثر اردو میں ’غین‘ ہو کر ’بُغچَہ‘ ہوگیا ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے ترکی کا ’آقا‘ فارسی میں لکھا تو ’آقا‘ ہی جاتا ہے، مگر پڑھا ’آغا‘ جاتا ہے۔
خیر ذکر تھا ’بُقچَہ‘ کا جو اردو میں ترکی کی راہ سے آیا اور ترکی میں فرانسیسی زبان سے داخل ہوا، فرانسیسی میں یہ لفظ بیگژ (bagages) ہے اور صندوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، پھر یہی bagages تلفظ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ انگریزی بیگج (baggage) ہوگیا ہے۔
فرانسیسی کا bagages تلفظ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ انگریزی بیگج (baggage) ہوگیا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ملک فرانس کے نام کو فرانک قوم سے نسبت ہے، اس جرمن قوم نے جب گال کا علاقہ فتح کیا، تو وہ ان کی نسبت سے فرانسیا یعنی فرانک لوگوں کا ملک کہلایا۔ جو بعد میں فرانس ہوگیا۔ یہی فرانک فارسی میں فرنگ اور عربی میں افرنج ہے۔
اول اول فرنگ سے فرانسیسی باشندہ مراد لیا جاتا تھا بعد میں اس فرنگ کے معنی میں وسعت پیدا ہوئی اور کُل یورپی اقوام اس میں داخل ہوگئیں اور فرنگی کہلائیں۔ اس بات کو علامہ اقبال کے شعر سے سمجھیں، جنہوں نے فرنگ کہہ کر یورپ مراد لیے ہیں:
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام
ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ فرانس میں جرمن قوم آباد ہے اور انگلستان میں فرانسیسی قبیلہ بستہ ہے، اور اس انگل قبیلے کی نسبت یہ علاقہ انگلینڈ اور ان کی زبان انگلش کہلاتی ہے۔ یہی انگلینڈ اور انگلش اردو میں انگلستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔