کراچی کے ایک کیفے میں ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ اور ماسک سے متعلق پوچھنے پر غصے میں آ جانے والی خاتون کو جوابی بحث اور ’ہیومن رائٹ ایکٹیوسٹ‘ کے طور پر کرائے گئے تعارف کے بعد سوشل ٹائم لائنز پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
سوشل ٹائم لائنز پر وائرل ہونے ویڈیو میں ایک خاتون کو جذباتی انداز میں گفتگو کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جو سامنے موجود افراد سے بحث کرتے ہوئے خود کو حاصل حقوق کی پامالی کا شکوہ کرتی ہیں، اور جواب سننے کے بجائے مسلسل بات کرتے کرتے اختتام پر دروازے سے باہر نکلتے ہوئے اپنا تعارف انسانی حقوق کی کارکن کی طور پر کراتی ہیں۔
Self proclaimed human right activist at Test Kitchen in Karachi yesterday. pic.twitter.com/El7ki1VJLE
— barimian (@barimian) October 7, 2021
کراچی کے علاقے زمزمہ میں واقع اوکرا کے ٹیسٹ کچن میں پیش آنے والے واقعے کی ویڈیو ٹویٹ کرنے والے اکاؤنٹ سے بتایا گیا کہ ’وہ ماسک پہننے سے انکار‘ کر رہی تھیں۔
غصے کا اظہار کرنے والی خاتون کی ویڈیو پر تبصرہ کرنے والوں کی بڑی تعداد ان کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔
واقعے پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے نشاندہی کی کہ خاتون جس بات کو اپنے حق کی خلاف ورزی کہہ رہی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے۔
مزید پڑھیں
-
دیکھنا دیدۂ پُر آب کا رنگNode ID: 606041
-
علی امین گنڈاپور نے ’مہنگائی مٹاؤ فارمولا‘ پیش کر دیاNode ID: 607036
’وہ کسی اور کی جگہ پر تھیں جہاں وہ حکومت کی جانب سے لازم قرار دی گئی بات پر عمل کو لازم قرار دے سکتا ہے۔ اگر انہیں ثبوت چاہیے تو سندھ ایپڈیمک ڈیزیز ایکٹ 2014 کے تحت انہیں پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت چارج کیا جا سکتا ہے۔‘
خاتون کے اصرار پر تبصرہ کرنے والے کچھ صارفین نے ان کا تعارف جاننا چاہا تو دیگر نے جواب میں لکھا کہ ’وہ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں۔‘

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب صدیقی نے اپنے تبصرے میں خاتون کے ’خراب رویے‘ کے باوجود ’نرمی سے اصرار جاری رکھنے‘ پر اسد کو سراہا تو لکھا ’میں آپ کے سینڈویچ کا فین تھا ہی اب نرم مزاجی کا قائل بھی ہو گیا ہوں۔‘

ماریانہ بابر نامی ٹویپ نے ایسے واقعات میں اضافے کا امکان ظاہر کیا تو لکھا کہ ’کسی کو ایسے موقع پر ایمرجنسی کال کرنی چاہیے، پولیس اسے ہیومن رائٹس سمجھائے گی۔‘












