ماں اپنی اولاد کی محبت میں زندگی بھر مشکلات کا سامنا کرتی ہے اور ان کی کامیاب زندگی کے لیے اپنی خوشیاں اور آرام قربان کر دیتی ہے۔ اولاد بھی اپنی ماں کو سب سے عزیز سمجھتی ہے اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ باپ سے زیادہ ماں سے قریب ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
وبا کے دنوں میں ماں کو گلے لگا لیں یا دور رہیں؟Node ID: 477981
-
میری پیاری امی، ماریہ میمن کا کالمNode ID: 571746
-
فادرز ڈے: ’امیر ہو یا غریب باپ ہمیشہ ہیرو ہوتا ہے‘Node ID: 575841
پاکستان کی فیشن انڈسٹری میں 28 سال سے اپنی محنت سے نام بنانے اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے فیشن ڈیزائنر عمر سعید نے اپنی والدہ سے محبت کا سب سے منفرد انداز اپنایا ہے جو شاید پاکستان میں واحد مثال ہے۔
عمر سعید نے اپنے نام کے ساتھ اپنی والدہ سمیعہ سعید کا نام شامل کر کے اپنا نیا شناختی کارڈ بنوا کو والدہ کو ’سرپرائز‘ دیا جس پر ان کا نام ’عمر سمیعہ سعید‘ لکھا ہوا تھا جسے دیکھ کو والدہ بھی حیران رہ گئیں۔
عمر سمیعہ سعید کے والد کیمسڑی کے پروفیسر تھے جبکہ ان کی والدہ اسلامیات کی لیکچرار رہی ہیں۔ عمر سعید نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی والدہ نے اپنے گھر اور اپنی اولاد کی کامیابی کے لیے انھیں محنت اور ایمانداری کا راستہ دکھایا جس پر چلتے ہوئے نہ صرف وہ بلکہ ان کے باقی بہن بھائی بھی اپنے اپنے شعبے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
اپنے نام میں والدہ کا نام شامل کرنے کے فیصلے اور اس پر عمل در آمد کے حوالے سے عمرسعید نے بتایا کہ ’یہ سوال میرے ذہن میں بہت دفعہ آتا تھا کہ جو ماں بچے کو پالتی ہے اور مشکلیں اٹھاتی ہے، اس کا نام ہمارے نام کے ساتھ کیوں نہیں آتا؟‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ خیال مجھے بار بار ستاتا تھا لیکن یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا کہ میں بھی اپنے نام کے ساتھ اپنی ماں کا نام جوڑ سکتا ہوں۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ بات میرے دماغ میں آ کر ٹھہر سی گئی کہ مجھے اپنی خوشی اور سکون کے لیے اپنے نام کے ساتھ ماں کا نام چاہیے۔‘
عمر سعید کے بقول ’باپ کا نام ساتھ ہوتا ہے لیکن مجھے والد کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کا نام بھی چاہیے تھا۔ یہ سب میں نے اپنی خوشی، ذہنی سکون اور دل کی خواہش کے لیے کیا ہے۔ کسی کو دکھانے کے لیے نہیں کیا اور نہ ہی پبلسٹی کے لیے کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب میں نے اپنا نیا ترمیم شدہ شناختی کارڈ دیکھا تو بہت خوش ہوا۔ یہ میں بہت پہلے کرنا چاہتا تھا لیکن زندگی کی مصروفیات کے باعث وقت نہیں ملتا تھا۔ جب کورونا آیا تو میں نے اپنے ساتھ بہت وقت گزارا تب میں نے سوچا کہ اتنے سارے کام کرتا ہوں تو وہ کیوں نہیں کر رہا جو میری دلی خواہش ہے۔‘
عمر سمیعہ سعید نے بتایا کہ ’میں نے اپنی بہن رومیسہ سعید کو بتایا کہ مجھے یہ کام کرنا ہے انھوں نے میری بھرپور مدد کی اور میرے ساتھ نادرا آفس گئیں۔ تاہم نادرا کا عملہ بہت مددگار نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے بہت ڈرایا لیکن میں نے انھیں کہا کہ یہ میرا قانونی حق ہے میں پاکستان یا اسلام کے خلاف کچھ نہیں کر رہا۔‘
عمر سمیعہ سعید کے مطابق ’نادرا کے عملے نے ڈرایا کہ مجھے جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا، میری ڈگریاں بے کار ہو جائیں گی۔ میں اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا۔‘
