وزیراعظم عمران خان نے دورہ کوئٹہ کے دوران ’درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول‘ استعمال کیا تو کچھ لوگوں نے وزیراعظم کو سابقہ بیانات یاد دلا دیے۔
سوشل ٹائم لائنز پر کوئٹہ کے ایک چوک سے گزرتے ہوئے ’وزیراعظم کے قافلے‘ کی ویڈیو شیئر کرنے والے ماضی میں دیا ان کا بیان ’پروٹوکول لوں گا نہ کسی کو لینے دوں گا‘ یاد کرتے رہے۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم عمران خان بدھ کے روز ایک روزہ دورے پر کوئٹہ پہنچے تھے جہاں انہوں نے سڑکوں کے نئے منصوبوں سمیت متعدد پراجیکٹس کا افتتاح یا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم کو ملنے والے پروٹوکول کی ویڈیو شیئر کرنے والے جہاں دوسروں کو اس میں موجود گاڑیوں کی تعداد گننے کی دعوت دیتے رہے وہیں اسے دہرا معیار قرار دیے بغیر بھی نہ رہے۔
وزیر اعظم کا دورہ کوئٹہ
گاڑیاں گنیں pic.twitter.com/4HlhwBtd8u
— AJ (@abduljabbarisb) April 28, 2021
کچھ صارفین نے دورے کے دوران پروٹوکول کی گاڑیوں کی کثرت کا ذکر کیا تو طنزاً اسے ’عوام کی حفاظت کے لیے‘ اٹھایا گیا اقدام قرار دیا۔

دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعظم کے پروٹوکول کے تحت کیے گئے دیگر اقدامات بھی تنقید کا نشانہ بنے تو کچھ صارفین نے اسے ’عوام کے لیے وبال جان‘ قرار دیا۔

دورے کے دوران اپنے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ 15سالوں میں یہاں 11سوکلو میٹ رسڑک کے منصوبے بنے جب کہ تحریک انصاف حکومت کے صرف اڑھائی سالوں میں 3300 کلومیٹر شاہراہوں کے منصوبے بنائے گئے ہیں۔
ان کے بیان کے اس حصے کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر ماضی کے بیانات کے حوالے دیے گئے تو متعدد صارفین ’قومیں سڑکوں سے نہیں بنتیں‘ کے جملے کی تکرار کرتے دکھائی دیے۔
پروٹوکول نہ لینے کے بیانات اور پروٹوکول لینے کے عمل کے درمیان فرق کو موضوع بنانے والے صارفین نے جہاں معاملے پر تنقید جاری رکھی، وہیں کچھ ٹویپس نے بھاری بھر کم پروٹوکول کو حفاظتی نکتہ نظر سے ضروری قرار دیا۔

ایسے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ حفاظتی بنیادوں پر اگر پروٹوکول ضروری ہے تو پھر ماضی کے وزرائے اعظم پر ایسا کرنے پر کیوں تنقید کی جا رہی تھی؟

ن لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں عمران خان سابق وزیراعظم نواز شریف کے پروٹوکول پر خاص تنقید کرتے تھے۔ اس دوران وہ متعدد بار غیرملکی حکام کے سائیکل پر دفتر آنے جانے کا تذکرہ بھی کرتے رہے تھے۔
کوئٹہ کے دورے کے دوران پروٹوکول کو جہاں حکومتی جماعت تحریک انصاف کے حامی حفاظتی حوالے سے لازم قرار دیتے رہے، وہیں ن لیگ سے تعلق رکھنے والے صارفین کا کہنا تھا کہ ’ہالینڈ کا وزیراعظم صرف نواز شریف کے دور میں سائیکل پر آفس جاتا تھا۔‘
سیاسی مخالفین یا دیگر کی جانب سے تنقید کے باوجود وزیراعظم کے حامی اس سے متاثر نہ ہوئے بلکہ اسے ’مافیاز‘ کا اقدام قرار دیتے رہے۔












