ہر گھر، خاندان یا حلقہ احباب میں ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جسے گاڑیوں کے حوالے سے تمام تر معلومات ہوتی ہیں، پھر چاہے نئی گاڑی لینی ہو یا سیکنڈ ہینڈ، یا پرانی گاڑی میں نئے ٹائر ڈلوانے ہوں، دیگر تمام افراد اسی سے مشورہ کرتے ہیں۔
اگر آپ بھی اپنی گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے کے بارے سوچ رہے ہیں، تو یہ تحریر پڑھ لیجیے مزید مشورے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
گاڑیوں کے ٹائر مختلف ممالک میں بنتے ہی اور ان کی الگ الگ خاصیتیں ہوتی ہیں، اور اچھی بات یہ کہ دنیا کے جس بھی ملک میں ٹائر بنیں وہ پاکستان میں ضرور دستیاب ہوتے ہیں۔ چاہے نئے ہوں یا استعمال شدہ، برآمد ہوئے ہوں یا سمگل شدہ، پاکستان میں دنیا کی ہر کمپنی اور برانڈ کا ٹائر دستیاب ہے۔
مزید پڑھیں
-
پوری دنیا میں صرف ایک کار،خریدار کون؟Node ID: 444211
-
دو کروڑ ریال کی مہنگی ترین کار فروختNode ID: 444741
-
لیمبرگینی کی 45 لاکھ روپے میں رجسٹریشنNode ID: 513586
یہی وجہ ہے کہ جب گاڑی کے ٹائر تبدیل کرنے کی باری آتی ہے تو فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کمپنی، کس ساخت، اور کس ہیئت کے ٹائر ڈلوائے جائیں۔
دنیا بھر کی ٹائر بنانے والی کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے بنائے ہوئے ٹائر کئی کئی ہزار بلکہ لاکھ کلومیٹر تک بھی چل سکتے ہیں۔
پاکستان میں ٹائر ڈیلرز بھی آپ کو ٹائر بیچتے وقت یہی بتائیں گے، لیکن جو بات وہ آپ کو نہیں بتاتے وہ یہ کہ یہ دعویٰ پاکستانی سڑکوں کے حالات کو مدنظر رکھ کر نہیں کیا جاتا، اور یہ تقریباً ناممکن ہے کہ پاکستانی سڑکوں پر ٹائر اپنی طبعی عمر پوری کر پائیں۔ اس سے پہلے ہی اس میں کٹ لگ جاتے ہیں، یا بے پناہ پنکچر ہوجاتے ہیں کہ ٹائر بدلنا پڑتا ہے۔
پاکستانی اور درآمد شدہ ٹائروں میں فرق کیوں؟
پاکستان میں بننے والے ٹائر کو درآمد شدہ ٹائروں سے کمتر گردانا جاتا ہے، مگر دراصل ایسا اس کی کوالٹی کی وجہ سے نہیں بلکہ ساخت اور افادیت کے باعث کیا جاتا ہے۔
کراچی کی ٹائر مارکیٹ میں اس کاروبار سے 40 سال سے منسلک آدم حسین کہتے ہیں کہ پاکستانی کمپنی میں بنے ٹائر شہر کی سڑکوں کے حساب سے بالکل مناسب ہوتے ہیں۔

’ٹائروں کی ساخت ان کی حد رفتار کا تعین کرتی ہے۔ جو ٹائر پاکستان میں بنتے ہیں وہ ’ٹی ریٹڈ‘ ہوتے جن کی حد رفتار 100+ کلومیٹرفی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس درآمد شدہ ٹائر بہتر ساخت کے ہوتے ہیں ’ایچ ریٹڈ‘ یا ’زیڈ ریٹڈ‘ ہوتے ہیں، جو بالترتیب 150+ اور 200+ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے لیے بنے ہوتے ہیں۔‘
لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ پاکستانی ٹائر معیاری نہیں ہوتے۔ سو اگر آپ کی روزمرہ ضرورت دورانِ شہر سفر کی ہے تو آپ بے فکر ہو کر پاکستانی ٹائر ڈلوا سکتے ہیں۔
ہاں البتہ اگر آپ مختلف شہروں کے مابین ہائی ویز اور موٹرویز پر سفر کرتے ہیں تو اپنی گاڑی کے مطابق برآمد شدہ ٹائر ڈلوا سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹائروں کے مقابلے میں درآمد شدہ ٹائروں کی قیمت اوسطاً ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتی ہے۔
کابلی ٹائر کیوں خطرناک ہیں؟
کابلی کوئی باضابطہ اصطلاح نہیں بلکہ سمگل شدہ اشیا کو حرف عام میں کابلی کہہ دیا جاتا ہے، اور یہی ضابطہ ٹائروں پر بھی لاگو ہے۔

بیرون ملک سے ٹائر سمگل کیے جاتے ہیں اور انہیں پالش کرکے درآمد شدہ کہہ کر بیچا جاتا ہے، کیوں کہ اس میں نفع کی شرح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
آدم حسین کا کہنا ہے کہ ‘ایسے ٹائر گاڑی اور انسان دونوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’سمگل کرتے ہوئے ٹائروں کو تور مروڑ کر ایک دوسرے میں سمویا جاتا ہے اور ایک کی جگہ 4 ٹائر گھسا کر لائے جاتے ہیں۔‘
’موڑنے سے ٹائر کے اندر کی تاریں ٹوٹ جاتی ہیں اور ایسے ٹائر کے برسٹ ہونے، کٹنے اور ٹیڑھا ہو جانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہی ٹائر عموماً حادثات کا سبب بنتے جس کے نتیجے میں نہ صرف گاڑی بلکہ قیمتی جانوں کا بھی نقصان ہوتا ہے۔ سمگل شدہ ٹائر ڈلوانے سے تو بہتر ہے کہ پرانے ٹائروں پر ہی گزارا کیا جائے۔‘
