لندن کے موسم اور پاکستان کرکٹ ٹیم کا بھلا کوئی کیسے اعتبار کریں
لندن والے اچانک بارش کا شکوہ اور تذکرہ کرتے ہیں تو پاکستان فینز اور کمزور دل والے حضرات پاکستان کرکٹ ٹیم کا۔
اب بندہ تین جون والی پاکستان ٹیم کو یاد رکھے یہ اکتیس مئی پاکستان ٹیم کو کوسے۔
اکتیس مئی کو سرفراز الیون آئی سی سی رینکنگ کی آٹھویں ٹیم ویسٹ انڈیز سے آؤٹ تو تین دن بعد نمبرون اور ورلڈ کپ کی ہاٹ فیورٹ ٹیم انگلینڈ ڈھیر ۔ ٹیم نے فینز کو رلایا اور پھر چھلانگیں لگانے پر مجبور کردیا۔
آخر ورلڈکپ ، ورلڈکپ ہوتا ہے جناب۔

مضبوط انگلش ٹیم کے خلاف گزشتہ پانچ میچز میں چار بار تین سو چالیس سے زائد رنز بنانے والی گرین شرٹس جیت کا مزہ چکھنے سے محروم رہی ۔ نو سینچریاں بنی لیکن ایک جیت نہ ملی۔
آج سینچری نہ بنی تو تو کسی بھی تین ہندسے کے انفرادی اسکور کے بغیر اپنی تاریخ کا سب سے بڑا اسکور بناڈالا ۔
سو گویا سچ ثابت ہوا سینچریاں نہیں زمہ داری لینے والا چاہیے ۔
محمد حفیظ نے میچ کے بعد کہا کہ وہ پاکستان کے ٹاپ تھری بیٹسمینوں کے فین ہے ۔
یعنی کے اقبال کہنے کے مطابق جوانوں کو پیروں کا استاد کر۔
امام فخر اور بابر اعظم نے ایک با پھر ایک سو تینالیس رنز بنائے اور جب جوان چلے تو پیر بھی پیچھے نہ رہے ۔ حفیظ اور سرفراز نے اس بار آصف علی کا انتظار نہیں کیا ۔دونوں ایک سو پچیس کے اسٹرائیک ریٹ سے زائد کھیلے اور کمال کھیلے ۔ْ۔لیکن عجیب ون ڈے دور کی اس چھلاوا انگلش ٹیم کو تین سو اننچاس سے روکنے کے لیے بھی پاپڑ بیلنا پڑے لیکن اس بار انگلش ٹیم کا سامنا ہوا عامر وہاب شاداب اور حفیظ کے تجربے سے اور کیچز ڈراپ کرکےبھی اس بار نیا پار لگ گئی ْ۔
وجہ وہی کہ ورلڈ کپ ، ورلڈ کپ ہوتا ہے جناب
ایک سو اٹھارہ رنز پر چار وکٹیں گرنے کے بعد بٹلر اور روٹ نے سینچریاں داغی لیکن اس بار تین سو چالیس والا اسکور چیس نہ ہوسکا ۔









