Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025
جمعرات ، 19 جون ، 2025 | Thursday , June   19, 2025

مشرق وسطیٰ کی نئی تاریخ

عبدالمنعم سعید ۔ الشرق الاوسط
2019ء....نئے سال کی آمد آمد ہے۔ قومی ریاست کی بحالی او ر سیاسی ِ جغرافیہ کی بحالی کا تصورکافی واضح ہوچکا ہے۔ اب تو مشرق وسطیٰ کی نئی تاریخ رقم کرنے کی باتیں بھی ہونے لگی ہیں۔
اس تمہید کا محرک یمنی بحران کے حل کیلئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی سویڈن مذاکرات بنے ہیں۔یمن کے متحارب فریق سویڈن میں مناسب پیشرف حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ الحدیدة شہر ، بندرگاہ ، صنعاء ایئرپورٹ اور قیدیوں کے تبادلے جیسے امور پر فریق متفق ہوگئے۔ اگلا مرحلہ جنوری 2019ءمیں شروع ہوگا۔ یہ سنجیدہ مذاکرات کا مرحلہ ہوگا۔ اسکے تحت آئینی حکومت کی حامی بین الاقوامی قرارداداوں پر عمل درآمد کی بات ہوگی۔ یہ درست ہے کہ یمنی بحران کا جامع حل ہنوز دور ہے البتہ سویڈن میں مذاکرات کے حوالے سے جو کامیابی ملی اس سے عراق، شام، لبنان، لیبیا اور یمن میں کشمکشوں کی آگ پر پانی ڈالنے کی امید کا چراغ روشن ہوا ہے۔اس سے امید کی یہ کرن پیدا ہوئی ہے کہ علاقائی اورچعالمی فریق ریاست کی بقاءکو یقینی بنانے اور اس کی تقسیم کی مخالفت پر کمر بستہ ہوچکی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ موجودہ ریاستوں کو چلانے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ ایک تو یہ ہے کہ پے درپے خانہ جنگی ہو اور اس کے نتیجے میں کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو زمین چٹا کر اقتدا ر پر قابض ہوجائے۔ ایسا ہوگا تو جانی و مالی نقصان بے شمار ہوں گے۔ بڑے پیمانے پرتباہی پھیلے گی۔ یہ بھی درست ہے کہ سابقہ حکمت عملی اور سیاسی ماحول برپا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں تقسیم ِاقتدار کے فارمولے کو تسلیم کرلیا جائے۔ اسکی بدولت تمام فریق اقتدار کا حصہ بن جائیں۔ یہ فیڈریشن کے ذریعے بھی ممکن ہے او ربرسر پیکارفریقوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کے توسط سے بھی ممکن حصول ہے۔ تیسرا معاملہ ملک کی تعمیر و ترقی کا ہے۔
  علاقائی اوربین الاقوامی فریق یمن کے حوالے سے غوروخوض کررہے ہیں۔ چوتھا معاملہ وہ ہے جو اگلے مرحلے میںبحرانوں والے ممالک کی درد سری کا باعث بنا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ علاقے کے دیگر ممالک ایران، ترکی اور اسرائیل وغیرہ کے ساتھ کشمکش کے معاملات کس طرح طے ہوں۔ آیا یہ علاقائی سلامتی کے جامع فریم کے تحت طے کئے جائیں یا مختلف طریقوں سے کشمکش جاری رکھنے کی نیت کرلی جائے۔ بہرحال یمن سے متعلق سویڈن مذاکرات نے یہ بات واضح کردی کہ یمن میں ایران کا کردار کم از کم فی الوقت ختم ہوچکا ہے۔ عرب اتحاد کی جانب سے یمن کی آئینی حکومت کی مدد نے یمن میں ایران کو اپنا وجود قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے سے روک دیا ہے۔ 
خطے پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہنگامہ جسے” عرب بہار“ کا نام دیا گیا تھا الحمد للہ منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی انارکی بھی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ بین براعظمی تنظیموں نے جو دین اسلام کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہا تھا، یہ تنظیمیں اپنے ہدف میں فیل ہوچکی ہیں۔ الاخوان، القاعدہ اور داعش نے جو خانہ جنگیوں کی آگ بھڑکائی اب وہ بجھ رہی ہے۔
اخوان بلوں میں گھس چکے ہیں یا انکا دائرہ اثر سیٹلائٹ چینلز تک محدود ہوگیا ہے۔ 21ویں صدی کا دوسرا عشرہ انتہا پسند طاقتوں کی شکست اور ریاست کے تصور کی بحالی پر منتج ہورہا ہے تاہم یہ پہلو بیحد اہم ہونے کے باوجود مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ کا آئینہ دار نہیں۔
اس کے ساتھ نام نہاد عرب بہار سے نجات یافتہ ممالک میں وسیع البنیاد اصلاحات کا عمل بھی شامل ہے۔یہ اصلاحات مصر، سعودی عرب، تیونس، مراکش ، اردن وغیرہ میں چل رہی ہیں۔یہاں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ انقلابِ فرانس اور نپولین کی جنگوں کے بعد 19ویں صدی عیسوی کے دوران یورپی ممالک میںبرپا ہونے والے حالات سے مماثلت رکھتے ہیں۔ یورپ میں ایک صدی کے دوران استحکام کا ماحول پیدا ہوا۔
آئندہ سال 2019ءمیں ممکن ہے کہ جاری رجحانات پختہ ہوجائیں۔کشمکش کا دائرہ ہلکا ہوجائے اور ہر ملک کے حالات کے حوالے سے سیاسی معاہدے طے پاجائیں۔ نئے آئین تشکیل پائیں ۔ انکی بنیاد پر پارلیمانی اور صدارتی انتخابات ہوں۔ اقتد ارکی تقسیم عمل میں آئے۔ مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان روایتی اقتدار کی تقسیم سے آگے بڑھ کر مختلف علاقوں کے درمیان بھی اقتدار کی تقسیم کا اصول طے پاجائے۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ غیر معمولی اہم ہے۔ کئی علاقائی منصوبے مشرق وسطیٰ کے متعدد ملکوں میں چل رہے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ 4فریقی عرب اتحاد (مملکت، مصر ، امارات اور بحرین) قطر مخالف اتحاد نہیں تھا۔ یہ بنیادی طور پر مذکورہ مثبت تبدیلیوں کے تئیں علاقائی توازن پیدا کرنے والا اتحاد تھا۔ یہ اتحاد ہی بحر احمر کے ساحلی عرب و افریقی ممالک کے گروپ کے قیام کا باعث بنا۔ اسٹراٹیجک حالات عرب اور افریقہ کے درمیان تعاون کے متقاضی ہیں۔ مثال کے طور پر مصر کو لے لیجئے جو دریائے نیل سے جڑا ہوا ہے۔ سعودی عرب اقتصادی اور سیاسی اسباب کے پیش نظر براعظم افریقہ کی جانب نئے زاویہ¿ نظر سے دیکھ رہاہے۔ امارات کرن افریقی میں وسیع البنیاد مفادات رکھتا ہے۔ ان سب کیلئے بحر احمر میں جہاز رانی تجارتی اقتصادی اور اسٹراٹیجک مفادات کے حوالے سے اشد ضروری ہے۔ اسکی سلامتی کے بغیر ان کا کام نہیں چلے گا۔ تفصیلات کیلئے غالباً ایک اور مضمون لکھنا ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ گروپ 2طرفہ تعلقات کے فروغ کیلئے ہی تشکیل نہیں دیئے گئے، اِن کا محرک عسکری اور اقتصادی بھی ہے۔ خطے میں استحکام ترقی کا محرک بنے گا اور ماضی میں جو المیے جنم لے چکے ہیں، انکے سامنے دیوار چین قائم کرنے کا سبق دیگا۔استحکام کیلئے بہت سارے چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔
آئندہ برس اس ضمن میں بیحد اہمیت کا حامل بنے گا۔ سب سے پہلے ایران اور ترکی کے معاملات کو لے لیجئے۔ یہ دونوں ابھی تک خطے میں نقب لگانے والے اپنے منصوبوں پر متفق نہیں ہوسکے ۔ انکا منصوبہ کامیابی سے ہمکنار بھی نہیں ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ ایران بالاخر امریکہ کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے الگ تھلگ ہوچکا ہے۔ اب وہ ان ممالک کے ساتھ الجھن کا شکار ہے جو ابھی تک ایٹمی معاہدے سے جڑے ہوئے ہیں۔
مثال کے طورپر روس، چین ، جرمنی اور فرانس ابھی تک ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے منسلک ہیں۔ اگر یہ ممالک معاہدہ جاری رکھتے ہیں تو انہیں امریکہ کی پابندیوں کی صورت میں اسکا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو وہ شام کے حالات کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بنانے والے کام کررہا ہے۔ وہ شمالی شام کے علاقوں میں نظم و ضبط کےلئے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
اسی دوران ترکی کو اچانک یہ بھی یاد آگیاہے کہ اسے یورپی یونین میں شمولیت کے لئے جاری مذاکرات کو منطقی انجام تک بھی پہنچانا ہے۔ترکی یہ خواب ایسے وقت میں دیکھ رہا ہے جبکہ اسے دو ٹوک اشارے یہ مل گئے ہیں کہ یورپی یونین میں اس کےلئے کوئی جگہ نہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو امریکیو ںکے بقول وہ درپیش صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسکے سامنے کیک بھی ہے اور اسے کھانے کا موقع بھی۔ وہ کئی عرب ممالک کیساتھ اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے اور غرب اردن نیزگولان کی شامی پہاڑیوں کو اپنی قلمرو میں شامل کرنے کیلئے اندرون ملک بحث بھی چھیڑے ہوئے ہے۔ اس قسم کی پالیسی خطے کے تمام فریقوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ خود اسرائیل کو سب سے پہلے اسکا نقصان ہوگا۔ یہ پیغام اسرائیلی وزیراعظم نتنیاہو تک پہنچنا بیحد ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: