Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
پیر ، 27 اکتوبر ، 2025 | Monday , October   27, 2025
پیر ، 27 اکتوبر ، 2025 | Monday , October   27, 2025

کیا سعودی نوجوان سرکاری ملازمتوں ہی کو ترجیح دیتے رہیں گے؟

جمال بنون ۔ الحیاة
  ایسا لگتا ہے کہ ملازمت کے متلاشی سعودی نوجوانوںکو یہ یقین ہوچلا ہے کہ سرکاری اداروں میں ملازمت کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔سرکاری ملازمتیں کم اور ناقابل قبول کیوں نہ ہوں انکی تنخواہیں کم کیوں نہ ہوں یہ مستقل ہوتی ہیں۔ انکے جانے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا ۔ تنخواہوں میں اضافہ اور ترقی کا سلسلہ مقررہ قوانین و ضوابط کے مطابق چلتا رہتا ہے۔ یہ احساس اکثر سعودی نوجوانوں میں وزارت محنت کی جانب سے جاری کردہ ملازمتوں کے احوال دیکھنے اور سمجھنے کے بعدخاص طور پر پیدا ہوا ہے۔ وزارت محنت نے ریٹیل کے شعبوں اور تجارتی مراکز کی ملازمتوں کی سعوائزیشن پروگرام کے مطابق جن ملازمتوں کا اعلان کیا ہے ایک تو انکی تنخواہیں معمولی ہیں۔ دوم یہ ملازمتیں بی اے ، ایم اے کی ڈگریاں رکھنے والوں اور مختلف شعبوں میں اسپیشلائزیشن کے سرٹیفکیٹ رکھنے والوں کےلئے موزوں نہیں ۔ زیادہ تر بے روزگار اور ملازمت کے متلاشی یہی لوگ ہیں۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ تجارتی مراکز کی ملازمتوں کی سعودائزیشن سے 3لاکھ سے زیادہ اسامیوں کی سعودائزیشن ہوئی ہے 20لاکھ غیر ملکی مملکت کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بھی حق اور سچ ہے کہ یہ سعودائزیشن کے پروگرام کی کامیابی کی علامت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اب تک نجی اداروں نے سعودائزیشن کے فیصلے کی بابت اپنا ردعمل نہیں دیا۔ ابھی تک نجی اداروں کا اس حوالے سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا کہ آخر وہ 4سے 5ہزار ریال تک کی تنخواہوں والی ملازمتوں کی ہی تشہیر کیوں کرتے ہیں جبکہ نجی اداروں میں خالی ہونے والی زیادہ تر ملازمتیں ساڑھے 3ہزار ریال تنخواہوں والی ہیں۔ یہ تنخواہیں دیکھ کر یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی تنخواہ بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کافی ہے؟یہ تنخواہ تو ایک انسان کی ضرورتوں تک کیلئے ناکافی ہے۔ یہ تنخواہ پانے والے نوجوان یا تو شادی تاخیر سے کریں گے یا شادی کا خیال ہی انہیں ذہن سے نکالنا ہوگا۔ وزارت محنت نجی کمپنیوں کو تنخواہیں بڑھانے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ اس کا ہدف تو بس اتنا ہے کہ کسی بھی تنخواہ پر سعودیوں کو نجی ادارو ںمیں ملازم رکھوا دیا جائے۔ اسے اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں کہ مطلوبہ اسامی کے لئے بی اے یا اعلیٰ درجے کی ڈگری رکھنے والے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ جتنی ملازمتیں نکل رہی ہیں وہ یا تو سیلز مین کی ہیں یا ریسپشنٹسٹ کی ہیں۔ ان ملازمتوں کیلئے معمولی تعلیم کافی ہوتی ہے۔ جہاں تک بڑی اور درمیانے درجے کی کمپنیو ںکا معاملہ ہے تو وہ اعلیٰ تنخواہوں پر سعودیوں کو نہیں بلکہ نیلی آنکھوں اور سنہرے بال والوں کو بھرتی کرتے ہیں۔ان کمپنیو ںمیں سعودی برائے نام ہیں۔ ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں ایمرجنسی گیٹ سے باہر کردیا جاتا ہے۔ 
گزشتہ ہفتے کنگ فیصل ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیزسینٹر نے اسٹیون ہیرٹیج کی تیار کردہ ایک رپورٹ جاری کی ہے جسکا عنوان ہے ”کیا لیبر مارکیٹ کی سعودائزیشن نجی ادارو ںکو نقصان پہنچائے بغیر کی جاسکتی ہے؟“۔ اسکالر نے واضح کیا ہے کہ نطاقات پروگرام نے سعودیوں کیلئے ملازمت کے بڑے مواقع پیدا کئے ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ نجی اداروں پر بھاری لاگت بھی تھوپ دی ہے۔ سرکاری اداروں میں دو تہائی سعودی ملازم ہیں۔ 12ملین سے زیادہ غیر ملکی نجی اداروں میں تعینات ہیں۔ سعودی شہری سرکاری ملازمت پر منحصر ہیں جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کی پہچان یہ ہے کہ سرکاری شعبوں میں 5فیصد سے بھی کم ملازم ہوتے ہیں۔ مملکت کے نجی ادارو ںمیں بیشتر غیر ملکی معمولی مہارتوں کے مالک ہیں۔ اسی وجہ سے انکا پیداواری معیار معمولی ہے۔ لیبر مارکیٹ میں سعودیوں کی تعداد آئندہ عشرے کے دوران سالانہ 2لاکھ سے زیادہ بڑھے گی۔اتنی تعداد ہی میں لوگ پختگی کی منزل تک پہنچیں گے۔ نجی ادارو ں میں سعودیوں کے لئے سالانہ ایک لاکھ سے زیادہ ملازمتیں مہیا نہیں کی جاسکیں۔ اس کی وجہ سے نئی ملازمتوں اور سعودیوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی۔ تازہ ترین جائزے میں 76فیصد سعودیوں نے بتایا کہ وہ سرکاری ملازمت کو ترجیح دیں گے۔ ڈیوٹی صبح ساڑھے 7بجے سے لیکر دوپہر ڈھائی بجے تک ہوتی ہے۔ نجی اداروںکا معاملہ مختلف ہے۔ غیر ملکی لمبی ڈیوٹی اور لمبی چھٹی کو پسند کرتے ہیں۔ بیشتر کے اہل خانہ مملکت کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سعودی ملازم کا حصول بڑا مشکل کام ہے۔یہ ملازمت جلد چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں انکی برطرفی مشکل ہوتی ہے۔ 50فیصد ملازمین کی تنخواہیں معمولی ہیں۔ رپورٹ میں چند سوالات شامل کئے گئے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ملازمت کی لاگت اور ملازمت ترک کرنے کا راستہ مسدود کرنے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟اس کے جواب میں توقعات ظاہر کی گئی ہیں کہ ملازمین کے حقوق اورلاگت میں خلیج پُر کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سعودیوں کو اچھی ترغیبات دی جائیں۔ نجی اداروں میں سعودیوں کو سرکاری اداروں سے لانا کوئی آسان کام نہیں۔ نجی اداروں میں سعودیوں کیلئے ملازمتیں تخلیق کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ 2030تک اس کا سامنا کرنا پڑیگا۔ نجی ادارو ںکو ایک طرف تو سعودیوں کیلئے ترغیبات کا نیا پیکیج لانا ہوگا۔ دوم ایک برس قبل نجی اداروں پر عائد کی گئی فیسوں اور ٹیکسوں پر بھی نظرثانی کرنا پڑیگی۔ اسکے بغیر انکی لاگت کم نہیں ہوگی۔ فی الوقت سعودیوں کیلئے پرائیویٹ سیکٹر میں کوئی ترغیب نہیں ۔ کنگ فیصل ریسرچ سینٹر سمیت دیگر اداروں نے لیبر مارکیٹ کے حوالے سے جو رپورٹیں اور مطالعات پیش کئے ہیں فیصلہ سازوں کو انہیں اچھی طریقے سے پڑھنا، سمجھنا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: