بجلی بل میں کمی کا بہترین حل شمسی توانائی
ڈاکٹر عبداللہ صادق دحلان ۔ عکاظ
محدود آمدنی والے صارفین بجلی کے بھاری بل سے پریشان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ حقیقی بحران ہے یا من گھڑت ہے یا مبالغہ آمیز ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ حقیقی بحران ہے۔ اس سے سعودی معاشرے کا بہت بڑا طبقہ الجھا ہوا ہے۔ ہوا یہ ہے کہ بجلی کے بل کی لاگت کم کرنے کیلئے ہمارے معاشرے نے متبادل حل نہیں اپنائے۔ دقیق ترین تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ سعودی عرب میں بجلی کی پیداوار اور بجلی گھروں کو چلانے کی لاگت غیر معمولی ہے۔
میرے اقتصادی نکتہ نظر سے ایک کلو واٹ بجلی کی لاگت پیداواری لاگت کے برابر ہونی چاہئے۔ معمولی سا منافع لینے میں کوئی حرج نہیںمگر مشکل یہ ہے کہ پیداواری لاگت میں اضافے سے بجلی کمپنی کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی بالواسطہ یا بلا واسطہ سبسڈی کی بندش یا معطلی کی صورت میں بجلی بل کم کرنے سے کمپنی کو خسارہ ہوگا۔ کمپنی کی شرح نمو معطل ہوجائیگی۔ مالیاتی مسائل سے نمٹنا مشکل ہوجائیگا۔ اسکے منفی نتائج برآمد ہونگے۔ بجلی کی فراہمی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے۔
مجھے یقین ہے کہ پبلک خدمات پیش کرنے والی کسی بھی کمپنی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ سبسڈی بند کرنے پر پیداواری لاگت بڑھے گی۔ یہ اضافہ صارفین کے حصے میں آئیگا۔ یہ بڑا پرانا مسئلہ ہے۔ میںمغربی ریجن میں بجلی کمپنی کی مجلس انتظامیہ کا رکن رہا ہوں ۔اس وقت میں یہ سب کچھ قریب سے دیکھتا رہا ہوں۔ مجلس انتظامیہ بل اور اخراجات میں توازن پر زور دیتی تھی مگر یہ مشکل کام تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بجلی گھروں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول فراہم کرنے پر حکومت کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ ایک طرح سے سعودی شہریوں کے بجلی بل کی لاگت میںسرکاری شراکت کی ایک شکل ہے۔
روایتی طریقے سے بجلی پیداوار کے خرچ میں کمی کرنے کی بڑی کوششیں کی گئیں تاہم معاشرے کے بڑے طبقے کیلئے بجلی بل آزمائش ہی بنا ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ روایتی طور طریقے اپنا کر بجلی پیداوار کی لاگت میں کوئی کمی کی جاسکے گی۔ میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ حل 2طریقے اپنا کر حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مقامی شہریوں پر لاگت کم کرنے کیلئے کفایت شعاری کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ شہریوں کی جانب سے اس پر پابندی مشکل ہے مگر یہ شہریوں کے اپنے بس میں ہے۔
جہاں تک دوسرے حل کا تعلق ہے تو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وژن 2030 کے تحت شمسی توانائی منصوبہ قائم کرنے کیلئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرکے اس کا آغاز کردیا ہے۔ اگر بجلی کمپنی نے نئے متبادل راستے پر عمل کیا تو یہ بات یقینی ہے کہ بجلی پیداوار کی لاگت کم ہوگی۔ مقامی شہریوں کے بس میں ہوگی۔ اسکی نسبت سعودی عرب صاف ستھری تجدد پذیر توانائی کے دور میں داخل ہوجائیگا۔ اسکے بموجب مملکت بھر میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی گھر قائم ہونگے۔ 2030تک ان بجلی گھروںسے 200گیگا واٹ توانائی حاصل ہوگی۔ نئے بجلی گھروں کے کام کرنے پر بجلی بل سعودی شہریوں کے لئے بھاری نہیں ہونگے۔
مجھے یقین ہے کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سافٹ بینک وژن فنڈ کی مجلس انتظامیہ کے چیئرمین کیساتھ شمسی توانائی منصوبے کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرکے مستقبل کی جہت میں اہم جست لگائی ہے۔ یہ سعودی وژن2030سے ہم آہنگ ہے۔ اس معاہدے کی بدولت شمسی توانائی کے ذریعے برقی توانائی کی دنیا میں عظیم کارنامہ سامنے آئیگا۔ مقررہ پروگرام کے مطابق اس کے تحت عظیم الشان منصوبے کے لئے مقررہ رقبہ ٹوکےو کے رقبے سے بڑا ہوگا۔ کئی یورپی ممالک کے رقبے سے زیادہ ہوگا جبکہ ریاست قطر کے رقبے سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہوگا۔ منصوبہ مکمل ہوگا تو سعودی عرب پوری دنیا میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی تیار کرنے والے قافلہ سالار ملک کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائیگا۔
توقع یہ ہے کہ اس عظیم الشان منصوبے کی بدولت ایک لاکھ سعودی نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ سعودی مقامی پیداوار میں 12ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ سالانہ40ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ یہ ایک طرح سے مملکت میں پٹرول کی ہمصری کرنے والا منصوبہ ہوگا۔ سعودی عرب بجلی استعمال کرنےوالے مملکت میں تیرہویں نمبر پر ہے۔سعودی عرب شمسی توانائی سے دنیا کی نصف پیداوار تیار کریگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭