Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
ہفتہ ، 02 اگست ، 2025 | Saturday , August   02, 2025
ہفتہ ، 02 اگست ، 2025 | Saturday , August   02, 2025

سعودی خواتین روشنی کی شاہراہ پر گامزن

امیل امین۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب نے خواتین کی ڈرائیونگ کے فیصلے پر عملدرآمد کا جشن جی جان سے منایا۔ اس جشن نے یہ پیغام دیا کہ سعودی عرب خواتین کو اسلامی تاریخ کے عہد اول کا کردار ادا کرنے کا موقع دوبارہ دینے کے سلسلے میں پر عزم ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ جس طرح اسلامی تاریخ کے عہد اول میں خواتین روشنی دینے اور لینے کی شاہراہ پر گامزن تھیں، وہی کردار وہ عصر حاضر میں بھی ادا کریں۔اکثر عرب ممالک کی بابت یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ماضی میں ان کا جو حال تھا اس حوالے سے ان کا مستقبل روشن تھا۔ یہ بنی نوع انساں سے آباد کرہ¿ ارض کا واحد جغرافیائی علاقہ ہے ۔اگر یہ صدیوں پرانے ماضی کی طرف لوٹ جائےں تو غالباً اس کا حال موجودہ صورتحال سے کہیں بہتر ہوگا۔
فلسفیانہ بحث و مباحثے سے قطع نظر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ سعودی عرب میں اپنے آپ کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور اسلام اور اس کے پیروکاروں کے تمدنی کردار کے احیاءکا حقیقی جذبہ جاگا ہوا ہے۔ 
دیکھا یہ جارہا ہے کہ اکثر علماءاور فقہا ءنے مسلم خواتین کے مسائل پر کافی کچھ لکھا۔ انہوں نے لمبی چوڑی ، بھاری بھرکم کتابیں قلمبند کیں، خواتین کے حقوق کی بابت اکثر امور میں ایک دوسرے سے جم کر اختلاف کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام اور اس کے پیروکاروں کی گھات میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے مسلم خواتین سے متعلق علماءکے افکار میں تضاد کو دینِ اسلام اور اہل ایمان پر نکتہ چینی کے تیر برسانے کا ذریعہ بنا لیا۔ انہوں نے مسلم مردوں پر بلا خوف تردید یہ الزام لگایا کہ وہ خاتون کو ناقص مخلوق سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ حقوق میں مرداور خواتین یکساں نہیں ہوسکتے۔ اس تناظر میں اہل مغرب کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی کہ مسلمان مردو زن کے درمیان مساوات کا اصول نافذ نہیں کرتے اور یہ لوگ انسانی حقوق کے عالمی منشور پر عمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ 
دین اسلام کی بنیادوں پر محققانہ نظر رکھنے والے جب اسلام میں خواتین کی قانونی حیثیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ یہ دیکھ کر حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے دوچار ہوتے ہیں کہ اسلام نے خاتون کو صحیح قانونی تشخص عطا کیا ہے۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں انسان کی تخلیق کی شروعات کا تذکرہ کیا گیا ہے وہاں وہاں یہ بتایا گیا ہے کہ مردو زن کا سرچشمہ ایک ہی ذات تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اے لوگو!اپنے اس پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا تخلیق کیا (سورہ النساء،آیت 1)۔
سعودی عرب کی ہوشمند قیادت نے خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے کا فیصلہ کرکے اس ٹیڑھ کو ٹھیک کیا ہے جو ناحق پیدا کردی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مردو زن ایک ہی جان سے تخلیق کئے گئے ہیں تو انسانی امور کی بابت دونوں میں ایک دوسرے سے برتری اور ایک دوسرے کے تقابل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بہت ساری آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ”اے لوگو!“کہہ کر خطاب کیا ہے۔ اس میں مرد ، عورتیں اور بچے سب شامل ہیں۔ اس میں کسی کو کسی پر کوئی برتری یا ترجیح نہیں۔ بعض اوقات مردو زن دونوں کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ کہیں صرف مردوں سے خطاب کیا گیا ہے۔ 
یہ بات حتمی شکل میں کہی جاسکتی ہے کہ اب جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خواتین کی ڈرائیونگ شرعی قواعد و ضوابط ، امن و امان اور اس کے تقاضوں کے منافی نہیں۔ ایسی حالت میں ڈرائیونگ کا فیصلہ پوری دنیا میں مسلم معاشرے کے انسانی تمدن کی بازیابی کا واقعہ بن گیا ہے۔ اس کی بدولت نفرت و عداوت سے کام لینے والوں اور لن ترانیاں کرنیوالوں کے آگے دیوار قائم کردی گئی ہے۔ 
انسان عصر حاضر کے حالات دیکھ کر اگر اسلام کے عہد اول میں خواتین کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ آج کی خواتین کے ساتھ بڑا برا ہوا۔اسلام کے عہد اول میں خواتین جہاد بھی کرتی تھیں، علوم و فنون کی مجلسیں بھی آباد کرتی تھیں، عبادت و ریاضت میں بھی پیش پیش رہتی تھیں، ترقیاتی عمل میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ اسلامی عقائد سے واقف کا ر جانتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کو سماجی پیغام کا علمبردار بنایا ہے۔ معاشرے میں اسے واضح موثر کردار بخشا ہے۔ اس کا دائرہ خاندان تک محدود نہیں رکھا۔
سوال یہ ہے کہ کیا قرآن پاک میں خواتین کو جو کردار دیا گیا ہے، آیا وہ موجودہ حالات میں اپنا یہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ خواتین کو یہ بات پوری قوت سے کہنی ہوگی کہ اس طرح کی ٹھوس سماجی تبدیلیاں ممکن نہ ہوتیں اگر مستقبل ساز قیادت یقین محکم کے ذریعے آگے نہ آتی۔ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان جو مستقبل کو حال سے قریب تر بنانے کا مکمل عزم کئے ہوئے ہیں۔ ان کی بدولت یہ تبدیلی ممکن ہوسکی۔ وہ اپنے وطن اور ریاست کو صحیح فہم اور اسلام کے حقیقی تصور کے بل پر بہت آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ اُس اسلامی تمدن کے احیاءمیں لگے ہوئے ہیں جسے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں نے مل جل کر تخلیق کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: