رضوان السید ۔ الشرق الاوسط
الازہر یونیورسٹی کے سیکریٹری ڈاکٹر عباس شومان کے اعزاز میں اہل پاکستان نے ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ انہوں نے اپنے لیکچر میں القاعدہ اور داعش کا تعارف معمول کے مطابق کراتے ہوئے کہا کہ یہ دونوں عصر حاضر کے خوارج کی نمائندہ تنظیمیں ہیں۔ یہ فساد فی الارض پھیلانے والے گروہ ہیں۔ ان پر قرآن کریم کی وہ آیت صادق آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فساد فی الارض کے کوشاں عناصر کے حوالے سے انتہائی سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔
قدیم مسلم فقہاءفساد فی الارض کے مرتکب عناصر کو ”حرابہ“ کے جرائم کا مرتکب قرار دیتے تھے۔ سیاسی حکام اور عدلیہ کے جج قرآن کریم کی متعلقہ آیت میں مذکور متعدد سزائیں انہیں سنایا کرتے تھے۔ سیکریٹری الازہر ڈاکٹر عباس شومان نے فسادفی الارض پھیلانے والے باغیوں کے درمیان فرق واضح کرنے کی کوشش کی۔ فقہا کے مطابق باغی عناصر وہ ہوتے ہیں جو کسی آیت یا کسی حدیث کی تشریح کرتے ہیں ،یہ انکی اپنی تشریح ہوتی ہے۔ انکے اپنے سماجی یا اقتصادی مطالبات ہوتے ہیں یا انہیںظلم و ستم کے شکوے ہوتے ہیں اور وہ حکام سے اپنے مطالبات اور شکوﺅں پر غوروخوض کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے سامنے چوتھے خلیفہ¿ راشد امیر المومنین علی بن طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال ہے۔ وہ باغی عناصر کو اسلام سے منحرف نہیں مانتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ باغی عناصر کے اپنے مطالبات ہیں اورمطالبات کیلئے ان کے پاس فقہی جواز ہے۔ اسی کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بھی مانتے تھے کہ باغی عناصر کو خلیفہ وقت اور انکے نمائندہ حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ انکا یہ بھی ماننا تھا کہ باغی عناصر ہتھیار اٹھائیں گے اور پھر انہیں حکام شکست دیدیں گے تو ایسی صورت میں با غی عناصر کا خون بہانا یا انکی املاک کو ضبط کرنا جائز نہیں۔ وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ اگر باغی عناصر ہتھیار ڈالدیں تو ایسی صورت میں باقی ماندہ عناصر کو معاشرے میں کھپانے کی کوشش واجب ہے۔ انکا تعاقب درست نہیں۔ جہاں تک بلا وجہ ہتھیار اٹھانے والے عناصر کا تعلق ہے جن میں قرامطہ سرفہرست آتے ہیں، انکا معاملہ مختلف ہے۔ یہ لوگ اپنے زیر قبضہ علاقوں میں لوگوں کا خون بہانے اور انہیں غلام بنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ انکے حوالے سے احکام الگ ہیں۔ ڈاکٹر فالح عبدالجبار نے ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ اسکا نام ہے” دولہ داعش“ ۔ اسکے معنی ہیں (داعش کی ریاست) داعشی ریاست کے عناصر نے خصوصاً الموصل میں 500افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے کا حکم جاری کیا۔ چند ماہ بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ سزائے موت کے احکام سراسر غلط تھے۔ اس پر الحسبہ پولیس نے مقتول عناصر کے اعزہ کو معاوضے دیکر خود کو بری الذمہ کرلیا جبکہ ججوں کو انکے عہدوں سے محروم نہیں کیا گیا۔ یہ جج سڑک چھاپ نوجوان تھے۔
سیکریٹری الازہر کا کہناہے کہ باغی عناصر عصر حاضر میں وہ ہیں جن کو ہم سیاسی اپوزیشن کا نام و عنوان دیتے ہیں البتہ مسلح کارروائی کرنے والے اس دائرے میں نہیں آتے۔ انکا مقصد دہشت پھیلانا ہوتا ہے تاکہ متاثرہ عناصر انکے اقتدار کو قبول کرلیں۔ ان پر قرآن پاک کی وہی آیت لاگو ہوتی ہے جس میں اس قسم کی سرگرمیاں کرنے والو ںکو فساد فی الارض برپا کرنےوالا کہا گیا ہے۔
عصر حاضر میں جو کشمکش دیکھنے میں آرہی ہے اس کا دائرہ قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ عقائد بھی اسکی زد میں ہیں۔ فقہی اور سیاسی ورثہ بھی اس کے حصار میں ہے۔ یہ کثیر جہتی کشمکش ہے کیونکہ القاعدہ اور داعش جیسے بنیاد پرست خامنہ ای ہم سے قرآن و سنت کے متن پر جھگڑا کرتے رہے ہیں۔ آج کل یہ فقہی ورثے پر ہم سے دست و گریباں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حوالے سے جو تاریخی جملہ کہا تھا وہ کسی نہ کسی شکل میں آج بھی صادق آرہا ہے۔ انہوں نے خوارج کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ہم نے تم سے نزول قرآن پر جھگڑا کیا اور آج ہم تم سے قرآن کریم کی تفسیر پر جہاد کررہے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس قسم کے عناصر من پسند انداز میں فقہی ورثے سے استفادہ کرتے ہیں۔ ہم ماضی میں قرآنی آیات کے ذریعے انہیں ان کے اشکالات کے جواب دے چکے ہیں۔ ہم نے قرآن و سنت کے تصورات میں انکی تحریفی کوششوں کو طشت از ابام کیا۔ اب ہم انہیں یہ بتانے پر مجبور ہیں کہ آپ حضرات جو خلافت کا علم بلند کئے ہوئے ہیں وہ دین کا اٹوٹ حصہ نہیں۔
لہذا نئی حکمت عملی درکار ہے اور دین و ریاست کے حوالے سے نئی تشریح اور نئی وضاحت ہمیں پیش کرنا ہوگی۔ یہ وضاحت مدلل ہو تب ہی بات بنے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭