لکھنؤ(ظفر محمد ) وزیراعلیٰ یوگی نے اپنی حکومت کا آج پہلا بجٹ پیش کیا جس میں صرف ہندو مذہبی مقامات کی ترقی اور ان کو سیاحتی نقشہ پر لاکر اکثریتی فرقہ کے مذہب اور کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یوگی نے تین لاکھ 84ہزار کروڑ کا بجٹ آج ریاستی اسمبلی میں پیش کیا۔ جو سابقہ سماج وادی حکومت سے گیارہ فیصد زائد ہے اس بجٹ میں یوگی حکومت نے بارہ سو کروڑ روپئے صرف اکثریتی فرقہ کے مذہبی امور پر خرچ کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کا مقصد 2019ء کے پارلیمانی الیکشن میں عوام کو بی جے پی کی طرف لانا ہے نیز 2022ء کے ریاستی الیکشن کو بھی ذہن میں رکھ کر مذکورہ بجٹ تیار کیا گیا ہے۔ 36ہزار کروڑ کسانوں کے قرض معافی کے لیے مختص کیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے مہیا کرائی جائے گی۔ وزیراعلیٰ یوگی نے آج بجٹ پیش کرنے کے بعد ایک پریس کانفرنس بھی کی جو افراتفری کی نذر ہوگئی۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب وہ ٹالتے گئے اور صرف یہ کہتے رہے کہ آپ دیکھتے جائیے آئندہ میں اور کیا کرنے والا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ریاستی حکومت کا بجٹ اس بار نوجوانوں اور عورتوں کو معنون کیا گیا ہے۔ جس وقت وزیراعلیٰ نے ایوان میں ریاست کے اس خسارے کے بجٹ کو پیش کیا تو حزب مخالف جو پہلے سے منظم ہوکر بیٹھا تھا اس کے ارکان اپنی سیٹوں پر کھڑے ہوگئے اور اسے ایک ناکام اور بیکار بجٹ قرار دے کر اس کو عوام دشمن بتایا۔ شور وہنگامہ کے دوران بجٹ خطاب ایوان میں پڑھا نہیں جاسکا اور شروع کی کچھ لائنیں اور آخر کے جملے پڑھ کر اسے پڑھا ہوا تسلیم کرلیا گیا۔ راشٹریہ لوک دل کے ممبران جوباہر اسمبلی کا گھیراؤ کر رہے تھے انہیں پولیس نے روک لیا۔مزاحمت پر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا جنہیں شام 4بجے رہا بھی کردیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ یکطرفہ ہے وزیراعلیٰ یوگی نے صرف ہندو مذہبی مقامات خاص کر اجودھیا، بنارس اور الٰہ آباد کو ترقی دینے کی بات کہی ہے جب کہ ریاست میں بہت بڑا بودھ سرکٹ موجود ہے جو کشی نگر سے لے کر لمبنی اور شراوستی تک پھیلا ہوا ہے۔ ان علاقوں کو سیاحت کی غرض سے بھی ترقی دینے کی کوئی بات بجٹ میں موجود نہیں ہے اسی طرح مسلمانوں کے بہت سے مذہبی مقامات ریاست میں پھیلے پڑے ہیں جہاں کثیر تعداد میں ملکی وغیرملکی سیاح آتے ہیں نیز ریاستی راجدھانی لکھنؤ میں واقع بین اقوامی سطح کی عربی ودینی یونیورسٹی دارالعلوم ندوۃ العلماء دیوبند میں دوسری عربی ودینی یونیورسٹی موجود ہے ان کا بجٹ میں کہیں نام بھی نہیں لیا گیا ہے اسی طرح بنارس میں جامعہ سلفیہ بھی ہے جس کی ترقی کے سلسلے میں نہ تو وزیراعظم نے جو ان کا انتخابی حلقہ ہے اور نہ ہی وزیراعلیٰ یوگی نے اس سلسلے میں کوئی ذکر کیا ہے۔