Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025
اتوار ، 27 جولائی ، 2025 | Sunday , July   27, 2025

کھیل کو کھیل ہی رہنے دو

کھیل اور ثقافت کو عوام کے درمیا ن نفرت اور کدورت کے پھیلا ؤ کا ذریعہ بنا نے کی بجا ئے اس کو امن وآشتی کا ذریعہ ہو نا چاہیے
* * * * سید شکیل احمد* * * * *
یہ ایام مرور کی بات ہے کہ سعی کے بعد تھکا وٹ اتارنے کی غرض سے مر وہ کے پاس ایک دروازے کی چوکھٹ پر سستانے کی غرض سے براجما ن ہو اتو ایک 12،13 سال کے لڑ کے پر نظر پڑی۔ رنگ گورا چٹا، سرخ ما ئل تاہم بال سیا ہ اور وہ ایک انگریزی کتابچہ کھولے اس میں سے دعا پڑ ھ رہا تھا۔ نوعمر بچے کو دیکھ کر گما ن ہو ا کہ یہ یو رپین ہے۔ تجسس کی کیفیت میں اس سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ وہ جنو بی افریقہ سے تعلق رکھتا ہے ۔جو اباًاس نے بھی استفسار کرلیا، جب اسے بتایا کہ پا کستان سے تعلق ہے تو وہ بہت شاداں ہو کر بولا کہ پاکستان میں تو بہت ہی کر کٹ مقبول ہے۔
پا کستانی کرکٹر تو بڑی مہا رت رکھتے ہیں تو احساس ہو ا کہ کھیل کتنے اہم ہیں کہ ایک نو عمر غیر ملکی لڑکا بھی پاکستان سے’’ تعارف‘‘ کھیل کی بنیا دپر رکھتا ہے۔ گویا کھیل بھی سفارتکاری میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں اور کھلا ڑی بہترین سفیر ثابت ہو تے ہیں چنا نچہ کھیل کو کسی دوسری آلو دگی میں ملوث کرنا نہیں چاہئے۔ اسے کھیل ہی رہنا چاہیے کیو نکہ یہ قومیت کی نما ئندگی کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔ ایو ب خان کا دور پاکستان کی معیشت کے لحاظ سے سنہر ی دور تھا ۔ اس دور میں صدر ایوب خان نے بہت سے اہم اقدام بھی کئے تاکہ پاکستان کے تشخص کو عیا ں کیا جا ئے ، چنا نچہ انھو ں نے چمبیلی جس کو یا سمین بھی کہا جا تا ہے، قومی پھول قرار دیا ، پا کستان کو ایک زرعی ملک کے نا تے گندم کو قومی زراعت قرا ر دیا ، اسی طرح ہا کی کو قومی کھیل قرار دیا گیا تھا حالانکہ ایو ب خان خود گالف شوق سے کھیلتے تھے۔
اُس زما نے میں پا کستان میںعوامی سطح پر کئی کھیل ہر دلعزیز تھے ، ان میں ہا کی کے علاوہ فٹ بال ، والی بال ، کبڈی ، پہلو انی ، کر کٹ ، باسکٹ بال او رکئی کھیل مقبول تھے لیکن سب سے زیادہ فٹ بال کھیلا جا تا تھا جس طرح اِن دنو ں کرکٹ کوچہ امصار میں کھیلا جا رہا ہے۔ پشاور میں بھی قومی سطح کے کئی ٹورنا منٹ ہوتے تھے۔ اُس زما نے میں ورسک ڈیم کی ٹیم فیو رٹ کر تی تھی اور اس کے ساتھ ہی کر اچی کی پرنٹنگ پریس کی ٹیم فیو ر ٹ تھی۔ ورسک ڈیم اور کر اچی پرنٹنگ پر یس کی ٹیمو ں میں کا نٹے دار مقابلہ ہو ا کرتا تھا۔ اسٹیڈیم میں اُس روز تل دھر نے کی جگہ نہ رہتی ۔
اسی طر ح والی بال دیہی علا قو ں کا مقبول کھیل تھا ۔یہ سب کھیل ہی کے طورپر مقبول تھے اور اس سے عوام کھیل ہی کا لطف لیتے تھے ۔ انسانی جبلت کا تقاضا ہے کہ اس کی ہمد ردیا ں اپنی پسندیدہ ٹیم کے ساتھ ہو ا کر تی ہیں اور یہ خواہش ہو تی ہے کہ اس کی پسندید ہ ٹیم ہی ٹورنامنٹ جیت جائے مثلا ًپاکستان میں بسنے والے مہا جر ہی کیا بلکہ افغانستان کے اندر بھی افغان عوام کی فیورٹ ٹیم پاکستان ہی رہی ہے اور پاکستانیو ں سے زیا دہ جو ش وجذبہ ان افغانیو ں میں دیکھنے میں آیا ہے مگر مقام افسوس ہے کہ اب ہند اورپاکستا ن کے درمیان کھیل کو کھیل نہیں رہنے دیا گیا ۔ اربا ب حل وعقد نے اس کو میدان جنگ بنا دیا ہے ۔ہند کے ایک معروف ٹی وی شو کپل شرما شو میں پا کستان کے مایہ نا ز کرکٹر وسیم اکر م ایک پر وگر ام میں مہما ن خصوصی تھے جس میں انھو ں نے کئی اہم باتیں کیں۔ انہو ں نے بتایا کہ عالمی سطح کے میچزکے دوران پاکستان کھیل کے مید ان میں اصل حریف ہو تے ہیں لیکن کھیل کے حریف کسی مید ان جنگ کے حریف نہیں ہو تے۔ میدا ن سے ہٹ کر دونو ں ملکو ں کے کھلا ڑی بہت اچھے دوستانہ تعلقا ت رکھتے ہیں لیکن جب میدان میں اترتے ہیں تو دوستی ڈریسنگ روم میں رکھ آتے ہیں اور میدان میں کھیل کے حریف بن جا تے ہیں مگر ہو ا کیا ہے کہ دونو ں ملکو ں میں کھیل کے مید ان کو دشمنی کا میدان بنا دیا ہے اور نفر ت کی شجر کا ری کر دی گئی ہے۔ حالیہ چمپیئنز ٹرافی میں ایسا ہی مظاہر ہ ہو ا۔
ایک ہندوستانی لیڈر نے ٹی وی شو میں اس سوال پر کہ وہ چمپیئنز ٹرافی کا فائنل دیکھیں گے، اس وقت یہ اندازہ نہیں ہو اتھا کہ فائنل میں کون کو ن سے ٹیم کا مقابلہ ہوگا تو مو صوف نے جو ا ب دیا کہ ان کو اس ٹورنامنٹ سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی ،ان کیلئے فائنل وہ میچ تھا جو پا کستان اورہند کے درمیا ن کھیلا گیا ۔یہ حد ہے نفرتو ں کو ابھا رنے کی، جب فائنل میں پا کستان کو کامیا بی ہوئی توہند میں شکست کا جو ردعمل آیا، وہ بھی اسی سیا ست اور سفارت کا ری کا عکس تھا کہ ٹی وی توڑے گئے ، آگ لگائی گئی ، احتجا ج ہو ئے ،تو ڑ پھوڑ ہوئی ۔پاکستان میں بھی جس انداز میں جشن منا یا گیا ،وہ بھی اس امر کی غما زی کر رہا تھا کہ گویا کھیل کے میدان میںکا میا بی نہیں ہو ئی بلکہ کوئی معر کہ جیت لیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے بھی ٹیم کی دعوت کا اہتما م دعوت ولیمہ سے بھی بڑ ھ کر کیا ۔ اس کے بعد آرمی چیف نے بھی دعوت کا اعزاز بخشا ۔ محولہ بالا بات کا قطعی مقصد کچھ اور نہیں، صرف یہ مقصود ہے کہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جا ئے کیو نکہ کھیل صحت مند رحجا ن کا بہتریں منبع ہے۔2فریقوں میں چاہے وہ ملکی ہو ںیا غیر ملکی ، ان کے درمیاں مثبت رویو ں کو فر وغ دینے کا ذریعہ ہیں ناکہ دشمنی کو فروغ دینے کا سبب ۔قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ کھلا ڑیوں کی سوچ اور طرز عمل دونوں ملکو ں کے عوام سے قطعی مختلف ہے۔
ہند کی شکست خوردہ ٹیم کے دھونی ، یو وراج سنگھ اور کوہلی وغیر ہ میچ کے اختتام پر پاکستانی کھلا ڑی اظہر علی، جنہو ں نے ہند کی ٹیم کو دھو دیا تھا، اسی مید ان میں ہنستے کھیلتے نظر آرہے تھے اور ان کی فیملی کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے۔ یہ بھی یا د رکھنا چاہیے کہ شاہد آفرید ی نے سری لنکن ٹیم کیخلا ف جو 137 رنز بنا ئے تھے، اس کیلئے سچن ٹنڈولکر کا بلّا استعمال کیا تھا ۔پاکستان کے کپتان سرفراز اور محمد عامر کی عمدہ بلے بازی سے سری لنکاکی ٹیم کو جو شکست ہوئی، اس میں ویر ات ہی کا بیٹ پاکستانی کھلا ڑیوں نے استعما ل کیا تھا۔ جب محمد عامر اپنی سز ا بھگت چکے اور ان کو قومی ٹیم شامل ہو نے کاوقت آیا تو اس وقت شاہد آفرید ی ، محمد حفیظ ، مصباح الحق اور رمیز راجہ نے ان کی ٹیم میںشمو لیت کی مخالفت کی جبکہ اس مو قع پر ویر ات کوہلی نے آئی سی سی سے اپیل کی تھی کہ محمد عامر کو بین الا قوامی کرکٹ کے دھا رے میںشامل کیا جا ئے۔ عمر ان خان کہ زما نے کے کپتان سنیل گو اسکر کے ساتھ تب بھی اور اب بھی بہتریں دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ہندوستانی فن کا رو ں نے عمر ان خان کے کینسر اسپتا ل کے فنڈ ز کیلئے غیر ممالک میں منعقد ہونے والے شوز میں شرکت کی جن میں امیتا بھ بچن ، عامر خان ، ونو د کھنہ ، ستمیتاسین ، دلبر سنگھ اور ریکھا کے نا م نما یا ں ہیں۔ اسی طرح شعبہ ثقافت میں شاہ رخ ، عامر خان ، سلمان خان پاکستانیو ں کے پسندیدہ اداکا ر ہیں ۔اس لئے بہتر ہے کہ کھیل اور ثقافت کو عوام کے درمیا ن نفرت اور کدورت کے پھیلا ؤ کا ذریعہ بنا نا نے کی بجا ئے اس کو امن وآشتی کا ذریعہ ہو نا چاہیے کیونکہ تنازعات و اختلا فات کی بڑھوتری یا خاتمے کا ذریعہ یہ شعبے نہیں ہو ا کرتے اور نہ ان سے ایسے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔

شیئر: