لکھنؤ۔۔۔۔۔ریاستی حکومت کی قرض معافی اسکیم میں تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔ ضلع کی بینکوں میں لاپرواہی کا عالم ہے، وہ ابھی تک ان کی منصوبہ بندی کا فائدہ ملنے والے کسانوں کی تعداد بھی فیصلہ نہیں کر پائی ہیں۔ بینک ابھی حکومت سے ملنے والے ڈیٹا کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس ملاپ کے بعد فائدہ ہونے والے کسانوں اور معاف ہونے والی قرض کی رقم کا اندازہ کیا جائے گا۔ بینکوں کی اس لاپرواہی سے کسانوں کی مشکل اضافہ ہوا ہے۔قرض معافی کا اعلان دو ماہ کا وقت گزر گیا ہے، لیکن ابھی تک کسانوں کو اس کا فائدہ نہیں مل پایا ہے۔ حکومت سے روز نئے ہدایات جاری ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے قرض معافی کی حد میں آنے والے کسانوں کی تعداد طے نہیں ہو سکی ہے، خمیازہ کسانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سینکڑوں کسان ایسے ہیں، جنہوں نے قرض معافی کی امید میں گزشتہ سال لیا گیا قرض بھی بینک کو واپس نہیں کیا ہے جبکہ حکومت صاف کر چکا ہے کہ 31 مارچ 2016 تک کے بقایا قرض کی ایک لاکھ روپے تک کی رقم ہی معاف ہو گی۔31 مارچ 2016 کے بعد لیا گیا قرض معاف نہیں کرے گا، لیکن کسان اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت ان کا پورا قرض معاف کرے گی. اس کی وجہ ان پر سود کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔قرض معافی کو لے کر بینکوں کا رویہ بھی درست نہیں ہے۔ ایک ماہ قبل حکومت نے لیڈ بینک مینیجر کے ذریعے بینکوں سے یہ اطلاع مانگی تھی کہ ان کے یہاں کتنے کسان قرض معافی کی منصوبہ بندی میں آ رہے ہیں، لیکن بینک ابھی تک یہ تعداد نہیں نکال پائی ہیں۔ بینک اب اس ڈیٹا کے انتظار میں ہیں، جو انہیں حکومت سے دستیاب بنایا جائے گا۔ایل ڈی ایم ایس کے کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ہمیں بینک وار ڈیٹا جلد ہی مل جائے گا۔ اس کے بعد بینکیں لسٹ کا ملاپ کرنے کے ساتھ ساتھ کسانوں کے آدھار کارڈ فیڈ کرائیں گے، جن کسانوں کے آدھار کارڈ کے اکاؤنٹ سے لنک ہوں گے، ان کا قرض سب سے پہلے معاف کیا جائے گا۔ آدھار سے نہ جڑنے والے اکاؤنٹس کی توثیق بعد میں کی جائے گی۔