بچپن میں اپنے لئے کارٹونز دیکھتی تھی، اب بچوں کیلئے دیکھتی ہوں، ڈاکٹر اسماء
عورت بحیثیت ماں بچوں کی تربیت اچھی کرے، اکٹر اسماء اعظم صدیقی کی ہوا کے دوش پر گفتگو
* * * زینت شکیل۔جدہ* * * * *
خالقِ کائنات نے دو عالم کو لفظ کن سے پیدا فرما کر اسکے ذرے ذرے میں سربستہ رازوں کی ا یک دنیا سمودی اور اس میں امکانات کا ایک لامتناہی خزانہ پوشیدہ کردیا۔ انسان فطرت کی تسخیر کیلئے پیدا کیاگیاہے۔
* اس ہفتے ہماری ملاقات ہوا کے دوش پر ڈاکٹر طلال محمود مالک اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر اسماء اعظم صدیقی سے ہوئی۔ جس طرح گھر کے افراد بچوں کی تربیت میں حصہ لیتے ہیں ،اسی طرح اطراف میں موجود قدرت بھی ایک ماحولیاتی علم سے مستفید کرتی رہتی ہے۔ اس بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ بچپن میں جو انسان دیکھتا، سنتا اور سمجھتا ہے، وہی زندگی کی بنیاد بنتا ہے۔ ڈاکٹر اسماء کا کہنا ہے کہ سماجی زندگی کی قدریں اور قدرت کی صناعی کاانسانی شخصیت پر اثرانداز ہونا لازمی امر ہے۔ اسی طرح ادب انسان کی سماجی اور تہذیبی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اردگرد کا ماحول ،مختلف علاقوں کے مختلف موسم اور ان کی مختلف جغرافیائی خصوصیات ،انسان کی ذہنی نشوونما میں بھر پور کردار ادا کرتے ہیں۔
* ڈاکٹر اسماء صدیقی نے کہا کہ جب بچپن میں والد اعظم صدیقی اور والدہ فرحت طیب نے اسکول میں داخل کرانے کا ارادہ کیا تو کئی ممالک کے بہت سارے اسکولوں کاجائزہ لیا۔ وہاں ساتھ جاتے تھے تو بچپن میں ہی اس بات کی طرف توجہ گئی کہ ہر ملک میں اسکے ہر علاقے میں بچوں کیلئے نہ ایک جیسے اسکول ہیں اور نہ ہی ایک جیسا ذہنی میلان۔ کہیں جائیں تو صرف گرے اور بلیک کلر کی ہر چیز نظر آئے گی اور کہیں چلے جائیں تو بہت سبزہ ملے گا اور کہیں بچوں کی بنائی ہوئی حَسین و خوبصورت خطاطی و مصوری بچوں کا دل لبھائے گی۔ کہیں گرین فاریسٹ کا بڑا پوسٹر اس میں ایک ا یسے منظر کو پیش کررہا ہوگا جیسے کہ سامنے بنی دیوار کسی ایسے جنگل کی ہے جہاں خوب بارش ہوتی رہی ہے۔ چرند پرند موجود ہیں، چھوٹے بڑے جانور ان کے ناموں کے ساتھ اس میں موجود ہیں۔ ہر طرح کے پھل دار اور بغیر پھل کے درختوں کے جھرمٹ میں ایک قدرتی تالاب بھی موجود ہے۔ ہریالی ایسی جومختلف گرین شیڈز میں اپنی خوبصورتی اور فطرت کی صناعی کا ثبوت پیش کررہی ہو۔
* بچوں کیلئے رنگین اسکیچ تک اور اس میں بنی اشکال میں رنگ بھرنے کیلئے رنگین پنسل اور کریونز موجود ہیں۔ اسکول میں اتنا فرق دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمام ممالک ہی اپنے علاقائی فرق کو جانے انجانے میں اپنے معاشرتی تشخص کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔ آج دنیا گلوبل ولیج کی طرح بن گئی ہے تو پوری دنیا میں ملتے جلتے رجحانات پائے جانے لگے ہیں۔
* بچہ اپنے گھر ، خاندان اور اپنے ماحول سے ہروقت سیکھتا رہتا ہے اس کی مثال پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر اسماء نے اپنی بات بتائی کہ جب اسکول میں داخلہ ہوا تو اس وقت مجھے اور میرے بھائی کو سب بچوں کی طرح ایک پہاڑ بنانے کیلئے کہا گیا۔ سوئٹزر لینڈ کے مقامی بچوں نے ہم دونوں سے بالکل مختلف رنگوں کے پہاڑ بنائے۔ کسی نے برفباری کا موسم دکھایا کہ چیز کی طرح پہاڑ بھی برف سے ڈھکے ہوئے یعنی دیکھنے میں سفید پہاڑ کی چوٹی کے اردگرد سورج کی کرنیں بھی موجود ہیں ۔ کسی بچے نے خوب ہریالی دکھائی کہ بہار کا موسم ہے۔ ہر چیز پر سبزہ اُگ آیا ہے۔ پہاڑ بھی سبز منظر پیش کررہا ہے۔ کسی بچے نے خوب رنگین پھولوں سے ڈھکا پہاڑی علاقہ بنایا۔
* پوری کلا س میں شایدمیں او رمیرے بھائی ہم دوہی ایسے بچے تھے کہ جنہوں نے سیاہ اور گرے کلر کے پہاڑ بنائے تھے کہ ہم نے انہی رنگوں کے پہاڑ اپنے علاقے میں دیکھے تھے۔ جب بچپن کویاد کرتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیںتو بخوبی سمجھ جاتے ہیں کہ بچے کی ایک تربیت تو گھر کے افراد، خاندان کے لوگ ، اسکول کے ساتھی و اساتذہ کررہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ اس بات کی تہہ تک بھی پہنچ جائیں گے کہ جغرافیائی تغیرات انسانی شخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
* کوئی نہیں کہتا کہ دیکھو سورج طلوع ہو گیا ہے بلکہ ہر کسی کومعلوم ہوجاتا ہے کہ رات ڈھل چکی ہے ، سورج نمودار ہو گیاہے، دنیا روشن ہوگئی ہے۔ طلوع و غروب کے بارے میں کوئی بچہ بھی بغیربتائے جان لیتا ہے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ ایک تربیت گھر اور تعلیمی اداروں میں ہوتی ہے اورانسان کی اس سے بھی بڑی تربیت قدرت کررہی ہوتی ہے۔ اردگرد موجود ہر چیز مالک حقیقی کی صناعی اور اپنے وجود کا ٹھوس ثبوت پیش کرتی ہے۔ صرف کتاب پڑھنا ،امتحان دینا اور نمبر لے آنا کوئی خاص بات نہیں۔ اس کے ساتھ دنیا میں سفر کرنا، ہر چیز کو دیکھنا اور انکی معلومات حاصل کرنا، اس سے بھی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ مختلف ممالک کی جغرافیائی خوبیاں، اسکی زمینی ساخت، موسم اور ثقافت میں زبان، لباس، مذاہب، خوراک حتیٰ کہ ایک نئی دنیا کا تعارف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اگرکوئی چاہے کہ ہم سیر کئے بغیر ساری دنیا کے بارے میں جان لیں تو انہیں مفید مطالعے کا شوق اپنالینا چاہئے۔ اسکا فائدہ ہر وہ قاری جان سکتا ہے جو مطالعے کو اپنی زندگی کے شب و روز میں شامل رکھتا ہے۔
* *ڈاکٹر اسماء صدیقی نے زندگی میں بہت کچھ سیکھا اور مختلف ممالک کی سیاحت نے انہیں دنیا کے جغرافیائی تغیرات سے آگاہی عطا کی۔ انکا کہنا ہے کہ والدین ہمیں بہترین تربیت دیتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ بچے بہترین تربیت پائیں اور آسمانِ حیات کاروشن ستارہ بنیں۔ وہ خود بھی معاشرے کے بہترین افراد بنیں اور دوسروں کیلئے بھی راہیں آسان کریں۔
* بچپن کے 10 سال سعودی عرب میں گزارے پھر سوئٹزر لینڈ میں بورڈنگ میں ایڈمیشن ہوا ۔ ہر 15دن کے بعدسوالات پوچھے جاتے تھے کہ کورس کے علاوہ کون کون سی کتابیں زیر مطالعہ رہیں، ان کتابوں کامصنف اپنے قاری کو کیا بات بتانا چاہتا ہے، وغیرہ۔ اس طرح بہت کچھ پڑھنے کا موقع ملا۔ شوق اور بڑھا ،معلومات بھی ملیں۔ منارات سے ہائی اسکول کے بعد کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے بیچلرز پروگرام مکمل کرنے کے بعد آکسفرڈ یونیورسٹی میں ماسٹرز پروگرام میں داخلہ ہوا ۔ اس وقت ان کی والدہ فرحت طیب نے جو بچوں کی تعلیم کی وجہ سے وہاں مقیم تھیں، آکسفرڈ بروک یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں خود بھی داخلہ لے لیا۔ یہ انکا دوسرا ماسٹرز تھا ۔ پہلا ایم اے وہ پاکستان سے مکمل کرچکی تھیں۔ اس طرح وہ ڈبل ایم اے ہوگئیں۔ بعدازاں مقامی یونیورسٹی میںلیکچرر کے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوگئیں۔
* ڈاکٹر صاحبہ کا خیال ہے کہ ایک مصنف کسی بھی واقعے ،ماحول یا حالات پر قلم اٹھاتا ہے تو اسکا نظریہ اسی نکتے پر اٹھائے گئے دوسرے قلم کار سے بالکل مختلف ہوسکتا ہے یعنی ایک ہی چیز کو دیکھنے اور سمجھنے کا معیار ہر شخص میں مختلف ہوسکتا ہے۔ تجربات ، مشاہدات اور تخلیقات انسان کو متاثر کن بنا دیتی ہیں۔ علم و عمل کی بہت اہمیت ہے۔ سیاحت سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ بچوں کو کتابی علم کے علاوہ قدرت و فطرت کے نظارے سے بھی متعارف کرانا چاہئے۔ اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر اسماء نے بتایا کہ ہم نے طائف اور مدینہ منورہ کے راستے میں جنگل میں چچا جان ،اپنے والد اور دیگر40فیملیز کے ہمراہ کئی مرتبہ سفر کیا ، پکنک منائی اور کھانے پینے کا انتظام بھی وہیں جنگل میں کیا یعنی کوئلے پر کھانا تیار ہوا۔ باربی کیو بنایا۔ بچوں، بڑوں نے ہر ایک وزٹ سے بے شمار چیزیں سیکھیں۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، لندن، فرانس، سوئٹزر لینڈ ، مصر ، اردن وغیرہ، کہیں بھی چلے جائیں ،ہر جگہ قدرت کی صناعی آپ کو کچھ نہ کچھ نئی آگاہی دے دیتی ہے۔ * بچپن میں گھر میںفٹ بال ، کرکٹ کے ساتھ اسکریبل بھی خوب کھیلا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ کیرم اور تاش بھی کھیلتے تھے۔ اسماء اعظم اپنے دونوں بھائیوں کے ہمراہ ہر کھیل میں شامل رہتی تھیں اور اپنی کزن سعدیہ صدیقی جو عمر میں کئی سال بڑی تھیں، ان سے خوب دوستی تھی۔ بہت اچھا بچپن گزرا۔ ان سے بہت کچھ سیکھا اور اپنی زندگی میں بہترین چیزیں شامل کیں۔ ڈاکٹر اسماء اپنے والدین کی بہت شکر گزار ہیں کہ ان کی محنت و شفقت نے آج انہیں ایک بہترین شخصیت بننے میں مدد کی۔ والد سے انہوں نے وہ سب کچھ سیکھا جو باہر کی دنیا میں ضروری ہوتا ہے۔ لوگوں سے کیسے معاملات و سلوک رکھا جاتاہے، سماجیات، معاشرت ، معاشیات اس میں سب کچھ داخل ہے۔ والدہ نے زندگی گزارنے کا بہترین اسلوب سکھایا۔ گھرداری کو بوجھ نہیں بننے دیا بلکہ ہر چیز آسان بنائی۔ جدہ میں 2009 ء میں شادی ہوئی۔ تمام لوگوں نے وقت کی پابندی کی اور کارڈ پر لکھے وقت پر تمام رسومات کی ادائیگی کے ساتھ طعام بھی مکمل ہوا۔
* ڈاکٹراسماء جو کنگ عبداللہ اکنامک سٹی میں خدمات انجام دے رہی ہیں اور اپنی متاثر کن شخصیت کی وجہ سے مقبول ہیں،کہتی ہیں کہ سہیلیوں کے ہمراہ انکا وقت اچھا گزرتا ہے۔ اب انکی مصروفیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ 3 سالہ محمد اور نورہ دونوں جڑواں بچوں نے امی جان کو خوب مصروف کررکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچپن میں وہ اپنے لئے کارٹونز دیکھتی تھیں جن میں عربی، اردو ، انگریزی کے تمام کارٹونز شامل تھے ۔ آج وہ اپنے بچوں کے لئے ان کے ہمراہ کارٹونزدیکھتی ہیں۔انکا ارادہ ہے کہ جتنی کتابیں انہوں نے پڑھی ہیں ،اتنی تو بچوں کوضرور پڑھائیں گی ۔ اردو ، عربی اور انگریزی کا کوئی اہم مصنف رہ نہ جائے۔ ہر ایک کو ضرور پڑھا جائے۔ ہر ایک کتاب سے بہت کچھ سیکھا جائے۔
* ڈاکٹر طلال محمود مالک اپنی شریک حیات کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسماء نہایت انسان دوست شخصیت ہیں۔ پوری سوسائٹی کی بہتری کیلئے تجاویز پیش کرتی رہتی ہیں۔ ان کی تجاویز 3 اہم معاملات کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ ہر انسان کو برائی، چوری چکاری، فراڈ وغیرہ سے بچانے کیلئے ا نکی روزی ، روٹی کا انتظام کیا جائے تاکہ کوئی آدمی اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے چوری نہ کرے۔ یہ پوری سوسائٹی پر لازم ہے کہ ہر ایک فرد کی اس بنیادی ضرورت کو پوری کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ایسی آمدنی کا ذریعہ دیا جائے جو مستقل بنیاد پر ہو۔ اس طرح وہ رزق حلال کمائیں گے اور کھائیں گے۔تیسری تجویز یہ ہے کہ ہر آدمی کسی نہ کسی درجے میں تجارت کرے اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ذہنی سکون ہو۔ یہ نہ ہو کہ اگر نقصان ہو گیاتو کل کیا ہوگا؟
* ڈاکٹر اسماء نے معاشرے کی بہتری کیلئے خواتین کا ہاتھ بٹانا ضروری قرار دیا لیکن کہا کہ ایسا اپنی اپنی سہولت کے حساب سے کیاجانا چاہئے ۔ کسی کو سہولت ہے تو وہ ضرور ی علم سے طلباوطالبات کے ذہن کو روشن کرے۔ عملی طور پر بھی ہاتھ بٹائے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ گھر سے باہر جاکر ہی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ وہ جہاں بھی رہے ،ہر صورت میں اپنے اردگرد کے افراد کیلئے روشنی پھیلانے کا سبب بنے۔ ماں ہے تو بچوں کی تربیت اچھی کرے۔ معلمہ ہے تو اپنے علم کے ذریعے بہترین سوچ کے حامل مفید افراد معاشرے کاحصہ بنائے۔ کسی تجارت میں مشغول ہے تو اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے اور بہترین معاشیات و اقتصادیات میں اپنا کردار ادا کرے۔ تجارت باعث برکت ہے۔ ڈاکٹر طلال کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ طلال محمود اعلیٰ خوبیوں کے مالک ہیں۔ اپنی صلاحیت، ذہانت اور پروقار شخصیت کے باعث احباب میں مقبول ہیں۔