ہم آج بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے دوسروں کی انگلی پکڑنے پر مجبور ہیں،روٹی چُرانے والا قید بھگت رہا ہے، کیونکہ قرضہ تو ’’رائٹ آف‘‘ ہو سکتا ہے،نوالہ نہیں
* * * *تسنیم امجد ۔ریاض* * * *
کسی بھی معاشرے کی سلا متی انصاف کی با لا دستی اور آئین کی حکمرانی سے منسلک ہے ۔آئین کی با لا دستی سے ہی قا نو ن کی حکمرانی ممکن ہے ۔معا شرے کی اصلاح کے لئے سب کے لئے یکساں قانون ضروری ہے ۔کسی بھی ملک میں آئین ایک عمرانی معا ہدے کی طرح ہوتا ہے ۔بد قسمتی سے وطن میں آئین کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کا وہ حقدار تھا ۔قانون کی نا توا ں حکمرانی نے ہیجان خیز نظر یا ت کو جنم دیا جس نے معاشرے کو خطر نا ک مسا ئل سے دو چا ر کر دیا ۔ بد قسمی سے ہمارے صاحبا ن اسی تگ و دومیں رہے کہ اپنے دور کے 5 سال مکمل کر لیں خواہ ملک کے 18کروڑ عوام کی ز ندگیو ں میں کوئی بہتری لا سکیں یا نہ لا سکیں۔ کراچی کی اہمیت کو کسی حکو مت نے جا ننے کی کو شش ہی نہیں کی۔ آبادی اور اسٹریٹیجک اہمیت کے اعتبار سے پا کستا ن کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ اس کی اقتصا دی شہ رگ بھی ہے۔
بیشتر کارو با ری ادارو ں کے ہیڈ کوا ٹرز ، ملک کا سب سے بڑا سٹاک ایکسچینج ، 60 فیصد کے لگ بھگ امپورٹرز، ایکسپو ر ٹرز ، اتنے ہی فیصد ٹرا نسپورٹرز اور ملک کی دو سب سے بڑی بندر گا ہیں یہیں پر ہیں۔یہ شہر آج بھی کُل ریو نیو کا 60 فیصد پیدا کر تا ہے ۔اس شہر کی آبادی 2 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اسے ملنے والی سہولتیں اتنی ہیں جوکسی ترقی یافتہ ملک میں صرف20 لاکھ کی آبادی کے لئے کافی ہوتی ہیں۔گویا کراچی ایک ایسا اونٹ ہے جس کے منہ میں زیرہ دیا گیا اور وہ بھی محض چٹکی بھر۔ کراچی میں59 فیصد آبادی کچی آبادیو ں میں رہنے پر مجبور ہے۔ان لوگو ں کو جا ن بوجھ کر بنیا دی سہو لتو ں سے محروم رکھا گیا تاکہ انہیںشعور نہ آسکے۔ قانون کی حفا ظت کر نے والو ں کی بڑی تعداد وی آئی پی ڈیو ٹی اور غیر انتظامی کا مو ں میں کھپا دی جا تی ہے ۔بھتے کا کاروبار بھی یہا ں عروج پر ہے ۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی جماعتو ں کے اہلکار اس میں ملو ث ہیں ۔لو گو ں میں اتنا شعور ہی نہیں کہ منشور کی بنیاد پرسیاسی جماعتوں کو پر کھ سکیں ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ قیا دت اور سیا ستدانوں میں سے ا کثر ایسے ہیں جو عوام سے کام لینے اور ا پنا الو سیدھا کرنے کے بعد انہیںبے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں۔دیکھا جائے توقیام پاکستان کے بعد سے جھو ٹے وعدے کر کے قوم کو لو ٹا جا تا رہا ۔آج جو جتنا بڑا کرپٹ ہے ،وہ اتنا ہی معزز ہے۔اربو ں کی کر پشن کر نے والو ں کے مقدمات عدا لتو ں میں ہیں لیکن پکڑ کو ئی نہیں اور زندہ رہنے کے لئے ایک وقت کی روٹی چُرانے والاعمر قید بھگت رہا ہے کیونکہ قرضہ تو ’’رائٹ آف‘‘ ہو سکتا ہے،روٹی کے نوالے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں جو قومیں ہم سے پیچھے تھیں، وہ تر قی کرکے ہم سے کہیں آگے نکل چکی ہیں اور ہم آج بھی اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کیلئے دوسروں کی انگلی پکڑنے پر مجبور ہیں۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر لا قا نو نیت اور آپا دھا پی کا شاہکار ہے ۔
ٹرانسپورٹ کسی بھی ملک کی معاشی تر قی کے لئے ریڑ ھ کی ہڈی کی مانند ہے۔وطن میں اس پر کو ئی تو جہ دینے والا نہیں ۔ اوور لو ڈنگ کا کاروبار ہر جا نب ہے ۔عوام کے ٹیلنٹ کو سلام ہے جو نا مواقف حالات میں بھی جینے کی راہیں کس حو صلہ مندی سے نکال لیتے ہیں۔مجبو ری میں قانون کسے یاد رہتا ہے۔جس انسان کو2 وقت کی رو ٹی کی فکر ہو، اسے کیا خبر کہ قانون کس کا نام ہے ۔یہ انسا نی فطرت ہے کہ پہلے اسے اپنی بنیا دی ضروریات چا ہئیں۔اسی لئے تو کہا گیا ہے کہ:
مفلسی حس لطا فت کو مٹا دیتی ہے
بھو ک آداب کے سانچو ں میں نہیں ڈھل سکتی
اسی طرح اسکول بسیں بھی قانون کا مذاق اڑا رہی ہو تی ہیں۔معصوم طلباء کا کوئی پر سان حال نہیں ہوتا ۔کاش عوام میں آداب سفر کا احسا س جا گ جائے ۔ز ند گیا ں دائو پر لگا نا کہا ں کی عقلمند ی ہے ؟ لا پر وائیا ں زندگی بھر کا روگ بن جا تی ہیں ۔اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں کا بیٹا یا شو ہر بس یا لا ری سے لٹکتا یا اترتا ٹا ئروں کے نیچے آ کر بری طرح کچلا گیا ۔اس طرح با قی گھر والے زندہ درگور ہو جا تے ہیں۔محرومی کسی بھی نو عیت کی ہو، انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔عوام حالات کے باعث حواس با ختہ نظر آتے ہیں۔کو ئی پر سا ن حال نہیں۔ایوانو ں میں حکو متی نما ئندے ہوں یا ان کی کا ر کر دگی پر تنقید کر نے والے حز ب اختلاف کے ارکان، عوام کی دہا ئیا ں سننے والا کو ئی نہیں۔یہ بیچا رے سوچتے رہ جا تے ہیں کہ ہم نے تو انہیں اپنے مسائل کے حل کے لئے منتخب کیا تھا مگر انہیںتوعوام ہی سجھائی نہیںدیتے ، ایسے میں وہ ہمارے مسائل کیاحل کریں گے۔ تب وہ تہیہ کرتے ہیں کہ اب انہیں ووٹ نہیں دیں گے لیکن پھر ان کی چکنی چپڑی باتو ں میں آ جاتے ہیں ۔یہ سلسلہ برسو ں سے چلاآ رہا ہے ۔
گھر سے نکلنے وا لا شخص گھر والو ں کی بھوک اور ضروریات کی تکمیل کا عزم لے کر نکلتا ہے لیکن شام تک جب حالات ساتھ نہیں دیتے تووہ تھک ہار کر اپنی زندگی سے لا پر وا ہو کرکہیں بھی لٹک پٹک کر گھر کی راہ لیتا ہے۔ اسے پرواکہاں رہتی ہے کہ وہ زند گی دا ئو پر لگا رہا ہے۔اس کی جیب میں جو چند ٹکے ہوتے ہیں وہ انہیں بچانا چا ہتا ہے ۔استطاعت سے بڑھ کر سفید پوشی کا بھرم رکھنا بہت مشکل ہے ۔ ایک صاحب حال ہی میں وطن سے لو ٹے۔ان کا کہنا ہے کہ ایک وین والے سے ہم نے جب یہ سوال کیا کہ وہ 20 سیٹو ں والی گاڑی میں 50 بچوں کو ٹھو نس کرا سکول کیوںلے جا تے ہو، اس طرح توایک دوسرے پر گرتے پڑتے اور دھکے کھاتے بچے جب اسکول پہنچتے ہیں تو ان کے یو نیفارم بھی ملگجے ہو جاتے ہیں۔
یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ سر ! اس کے لئے ہم بھتہ دیتے ہیں۔آ خر اس کا خر چہ بھی تو نکا لنا ہے۔ہم جس راستے سے آتے جا تے ہیں وہ شارٹ کٹ ہے اس کی اجازت صرف اسی بھتے کی بدو لت ہے ۔سر جی وہ راستہ صرف بڑی گاڑ یو ں کے لئے ہے۔بھتے میں بڑی طاقت ہے ۔کو ئی ما ئی کا لعل ہمیں چھو بھی نہیں سکتا ۔ ہمارے بعض صا حبان نے سو فیصد استبداد کی راہ اپنا ئی ہو ئی ہے۔ اسی لئے ذاتی مفادات کو تر جیح دی جا رہی ہے ۔اختلا فا ت کی خلیج گہری سے گہری ہو تی جا رہی ہے ۔دنیا ہما رے حال پر ہنس رہی ہے ۔ایک ہی وطن میں رہتے ہو ئے طبقاتی تقسیم ،چہ معنی دارد؟انہی کھچا کھچ بھری گا ڑ یو ں میں خواتین کی حالت زار بھی نا قا بل بیا ن ہو تی ہے ۔بیچاری مجبو ری کی حالت میںہی ان میں سفر کرتی ہیں۔ایک خاتون کا کہنا ہے کہ گاہے گا لی گلوچ تک نو بت پہنچ جاتی ہے ۔اگلی دو سیٹیں ہمارے لئے ہو تی ہیں لیکن مرد وہا ں برا جمان ہو تے ہیں ۔انہیں اٹھانے کی ہمت کون کرے ؟ اکثر ڈرائیوروں نے اونچی آواز میں بے ہودہ گانے لگا رکھے ہوتے ہیں۔گز شتہ دنو ں کسی نے گانے بند کرنے کو کہا تو سبھی چیخنے لگے کہ گرمی بہت ہے، گا نو ں کی آواز سے ذرا سفر توکٹ رہا ہے ۔اب اس شو ق کو کیا نام دیں ؟ ایسی ہی صورت حال کے لئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
اک خوف زدہ جیون لے کر
میں موت کے گھر میں رہتا ہوں
میں سانس بھی گن کر لیتا ہوں
جس روز سفر میں رہتا ہو ں
جس شہر کا نام کرا چی ہے *میں اسی نگر میں رہتا ہو ں
آج انفرادی محاسبے کے احساس کو جگا نے کی اشد ضرورت ہے ۔حکو متو ں پر تکیہ کر نے سے مسائل حل نہیں ہو نگے۔