سعودی شیف مریم مروان عتیق اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور سعودی پکوانوں کو عالمی سطح ہر پیش کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔
لوگ ان کی تخلیقی صلاحتیوں اور سعودی پکوان کی تیاری کے روایتی طریقے کو عالمی سطح پر پیش کرنے میں ان کی کوششوں کو سراہے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مزید پڑھیں
-
الحساوی چاول سے اطالوی ڈش تیار کرنے والی خاتون سعودی شیفNode ID: 791651
عرب نیوز کے مطابق مریم عتیق کا تجربہ 15 برس پر محیط ہے اور وہ سعودی پکوانوں کو آج کل کے بین الاقوامی اور دل موہ لینے والے انداز میں پیش کرتی ہیں لیکن سعودی کُزین کے اصل خاصے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتیں۔
مریم عتیق کی نظر میں سعودی کُزین محض کھانے کی ترکیبوں کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ’اجزا اور ذائقوں کا ایک سمندر ہے، جسے مملکت کے قدرتی وسائل سے مالا مال جغرافیے اور ثقافتی رنگا رنگی نے ایک نئی صورت دے دی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اس میں جو گہرائی ہے وہ سعودی کھانوں کو ان کا امتیازی کردار دیتی ہے اور یہی آگے چل کر ثقافتوں کے درمیان پُل کا کام کرتا ہے۔‘
مقامی اور بین الاقوامی نمائشوں میں اکثر شرکت کے باعث مریم عتیق نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سعودی ذائقے دنیا بھر کے لوگوں کو کس طرح اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔

انھیں یاد ہے کہ جب ایک 90 برس کے شخص سے ان کا آمنا سامنا ہوا جنھوں نے ایک نمائش میں پہلی بار جریش (گندم، دہی، فرائی کردہ پیاز اور گوشت سے بننے والی سعودی ڈش) کو چکھا۔ جس طرح وہ اس ڈش سے متاثر ہوئے، ان کا یقین مزید پختہ ہوگیا کہ سعودی کھانوں کو عالمی طور پر پسند کیا جاتا ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’کھانا ثقافت کا سفیر ہوتا ہے۔ سعودی ذائقوں اور اجزا کو، کھانا پیش کرنے کے عالمی طریقوں کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس سے سعودی کُزین دوسروں تک جلدی پہنچ جاتا ہے اور عالمی ذوق کے لیے پسندیدہ بن جاتا ہے۔‘
مریم عتیق نے وزارتِ ثقافت اور کلنری آرٹ کمیشن کی تعریف کی اور کہا کہ’ ان کی کوششوں سے سعودی کھانوں کی میراث دستاویزی شکل میں محفوظ ہو رہی ہے۔‘
انھوں نے خود بھی مملکت کے دو علاقوں سے روایتی سعودی کھانوں کی ترکیبیں کو تحریری شکل دی ہے۔

انھوں نے اس حوالے سے آن لائن پلیٹ فارموں کے کردار پر زور دیا اور کہا کہ ’ایسے پلیٹ فارم سعودی کھانوں کو عالمی سطح تک متعارف کرانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔‘
انھوں نے میڈیا میں کام کرنے والوں اور کانٹینٹ بنانے والوں سے کہا کہ’ وہ اس ’ثقافتی مشن‘ میں حصہ لیں جس کا عتیق خود بھی اہم حصہ ہیں۔‘
’میں سعودی کُزین کو دنیا تک پہنچانے میں اپنی کوششیں جاری رکھوں گی، جس میں ہمارے مستند ذائقے ہیں اور جن میں ہماری ثقافت کی روح دوڑتی ہے۔ میں اس کُزین کو ثقافتی سفیر بنانا چاہتی ہوں جو مملکت کی گونا گوں خصوصیات اور شان کا مستحق ہے۔‘