Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

خیبر پختونخوا کی خواتین پولیس افسران: ’وردی پہن لی تو جینڈر بھول جائیں‘

انیلہ ناز کے پاس پشاور کی پہلی خاتون پولیس ٹریفک افسر کا اعزاز بھی ہیں۔ (فوٹو: محکمۂ پولیس)
حالیہ برسوں میں خیبر پختونخوا کی پولیس فورس میں اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل سے لے کر ایس ایچ او تک اہم عہدوں پر خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی دیکھنے میں آئی جو اپنا لوہا منوانے لیے ’ہر چیلنج پر پورا اترنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
سنہ 2022 میں پہلی مرتبہ صوابی سے تعلق رکھنے والی عائشہ گل نے صوبے کی پہلی خاتون اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل (اے آئی جی جینڈر ایکویلٹی) کا چارج سنبھالا تھا۔
جبکہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی سونیا شمروز چترال اور بٹگرام میں بطور ڈی پی او خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ انہیں انٹرنیشنل ویمن ان پولیسنگ کانفرنس 2023 میں پولیس آفیسرآف دی ایئر کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اسی طرح ایلیٹ کمانڈو کی اسسٹنٹ سب انسپکٹر صائمہ شریف نے اقوام متحدہ کی جانب سے امن مشن سوڈان میں بطور پیٹرولنگ افسر کام کیا۔
انیلہ ناز گزشتہ دو برس سے اے آئی جی جینڈر ایکویلٹی کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ان کے پاس پشاور کی پہلی خاتون پولیس ٹریفک افسر کا اعزاز بھی ہیں۔
خیبر پختونخوا کے مردوں کے معاشرے میں خواتین کے لیے آگے بڑھنا ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ تاہم ان پولیس افسران سمیت خواتین خود کو بااختیار بنانے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں کوشاں نظر آتی ہیں اور روزمرہ کے چیلنجز کا بہادری سے سامنا کر رہی ہیں۔
’خود کو ثابت کرنے کے لیے فرنٹ پر آنا پڑتا ہے‘
انیلہ ناز بطور اے آئی جی جینڈر ایکلویلٹی آج کل خواتین، ٹرانس جینڈر اور بچوں کے حقوق سے متعلق امور دیکھ رہی ہیں۔ اس سے قبل ان کو پشاور کی سڑکوں پر لائسنس چیک کرتے اور عوام میں ٹریفک سے متعلق آگاہی دیتے ہوئے دیکھا گیا۔
ان کا تعلق لکی مروت جیسے پسماندہ صوبے سے ہے جہاں صوبائی دارالحکومت پشاور کے برعکس خواتین بہت کم گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔

سونیا شمروز چترال اور بٹگرام میں بطور ڈی پی او خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ (فوٹو: یو این ڈی پی)

پولیس جیسے محکمے میں خود کو منوانے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ خود کو ثابت کرنے کے لیے فرنٹ پر آنا پڑتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے سخت محنت کرنا ضروری ہے۔
’پہلے کی نسبت اب خواتین کے لیے حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ ماضی میں خواتین کو آگے آنے کے زیادہ مواقع نہیں ملتے تھے۔ اگر وہ پیشہ ورانہ کورسز بھی مکمل کر لیتیں تب بھی انہیں صرف ایک ہی جگہ بیٹھ کر سکیورٹی ڈیوٹیز تک محدود رکھا جاتا تھا۔‘
’کوئی بھی چیلنج ہو تو ہم خواتین پولیس اہلکار اس پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں چاہے وہ تفتیش ہو، سڑک پر ڈیوٹی ہو، ہتھیار چلانا ہو یا چھاپے مارنا ہو۔ ہماری خواتین اہلکاروں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتیں۔‘
ایک خاتون پولیس اہلکار کو ذاتی اور پیشہ ورانہ سطح پر کن چیلنجز سامنا ہوتا ہے؟
انیلہ ناز کہتی ہیں کہ پیشہ ورانہ سطح پر خواتین اہلکاروں کو مرد ساتھیوں کی جانب سے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ بہت کم لوگ چاہتے ہیں کہ خواتین آگے آئیں۔
’کسی مرد سے کوئی عہدہ لینا آسان نہیں ہوتا۔ جب میں ٹریفک میں پولیس میں تعینات ہوئی تو شروع میں مجھے ایک طرف کر دیا اور کہا گیا کہ ڈرائیونگ سکول میں کام کریں، لائسنس دیں اور پبلک ڈیلنگ سنبھالیں۔ لیکن ہمارے سینیئر افسران آئی جی، سی سی پی او اور سی ٹی او کو ہم پر اعتماد ہے کہ خواتین ایمانداری سے کام کرتی ہیں اور بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں اس لیے وہ ہمیں آگے آنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کوشش تو ہم کر رہے ہیں لیکن اب بھی تھوڑا سا سفر باقی ہے۔‘

نیلم شوکت کے مطابق ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ’ہم بغیر پردے کے نہیں نکل سکتے‘ (فوٹو: یو این ڈی پی)

’مرادن کے لوگوں میں یہ تاثر بن گیا کہ یہ افسر کسی کو نہیں چھوڑتی‘
ریشم جہانگیر آج کل ایس پی سٹی مانسہرہ تعینات ہیں۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اور ان کی پہلی تعیناتی بطور سب ڈویژنل پولیس آفیسر مردان میں ہوئی، اس کے بعد بنوں ایف سی میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے طور پر فرائض انجام دیتی رہیں، پھر بطور ایس پی بالاکوٹ تعینات رہیں اور اب ایس پی سٹی مانسہرہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
مردان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز کو کسی خاتون پولیس افسر نے لیڈ کیا اور غیرقانونی اسلحے اور مشیات فروشوں کے خلاف موثر کارروائیاں کیں۔
’جب میری پوسٹنگ مردان میں ہوئی تو میرے اردگرد سب یہ کہہ رہے تھے کہ پشتون بیلٹ میں پنجاب سے آئی ہوئی ایک خاتون پولیس افسر کس طرح کمانڈ سنبھالے گی؟‘
’شروع کے چھ ماہ میں خود چھاپے مارتی تھی، خود ریکوریز کرتی تھی جس سے ایک ڈیٹرنس پیدا ہوا۔۔۔ لوگوں میں یہ تاثر بن گیا کہ یہ افسر کسی کو نہیں چھوڑتی۔ یہ سب اس لیے ممکن تھا کہ میری نفری میرے ساتھ مکمل طور پر وفادار تھی۔‘
’ایس ایچ او صاحب جب وردی پہن لی تو نہ آپ مرد رہے اور نہ میں عورت‘
ریشم جہانگیر کے مطابق تعیناتی کے فوری بعد میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جب رات کے وقت ایک لاش ملی لیکن ایس ایچ او نے اطلاع نہیں دی۔
’جب میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ میڈیم آپ لیڈی ہیں رات کو اطلاع دینا مناسب نہیں نہیں سمجھا تو میں نے فوری جواب دیا کہ ایس ایچ او صاحب جب میں نے وردی پہن لی تو نہ آپ مرد رہے اور نہ میں عورت۔ آپ ایس ایچ او ہیں اور میں اے ایس پی ہوں اور آپ کی کمانڈنگ افسر ہوں۔ آپ نے جینڈر کو بھول جانا ہے اور پیشہ ورانہ ذمہ داری کو یاد رکھنا ہے۔‘
ایس پی ریشم جہانگیر نے مردان میں تقریباً ڈیڑھ سال گزارے اور ان کی موثر پولیسنگ کی بدولت آج بھی ان کو خیبر پختونخوا پولیس میں عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ریشم جہانگیر نے بنوں ایف سی میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کے طور پر فرائض انجام دیں۔ (فوٹو: پی ایس پی آفیسرز فیس بک)

ایس پی ریشم جہانگیر کے کریڈٹ پر ایک کیس جاتا ہے جب انہوں نے 12 گھنٹوں کے اندر دو گھنٹے کا ایک نوزائیدہ بچے کو ماں کے حوالے کیا۔
’مردان میڈیکل کمپلیکس سے ایک نوزائیدہ بچہ جو صرف دو گھنٹے کا تھا جس کو ایک خاتون اٹھا کر لی گئی۔ شام کے سات بجے ہمیں یہ واقعہ رپورٹ ہوا۔ ہم نے رستم کے علاقے سے وہ بچہ صبح چار بازیاب کرایا۔ اس کارروائی میں نہ صرف بچہ ملا بلکہ ہم نے اس خاتون اور سہولت کار کو بھی گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ میرے سینیئر افسران نے مجھے سراہا تھا اور یہ کیس ’مائل سٹون‘ اور ’لینڈ مارک‘ ثابت ہوا۔‘
’مردان کے لوگوں اور پولیس سٹاف نے میری فیملی سے بھی زیادہ خیال رکھا۔ میں اکثر سب کو کہتی ہیں کہ میری ایک فیملی مردان میں ہے اور ایک گوجرانوالہ میں۔‘
’2008 میں گھر سے شٹل کاک برقع پہن کر پولیس لائن جاتی تھی‘
سنہ 2006 میں سوات کے واحد ویمن پولیس سٹیشن کی ایس ایچ او نیلم شوکت نے محکمہ پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی اور ہنگو میں ٹریننگ لی تھی۔
وہ گزشتہ ایک برس سے سوات جیسے قدامت پسند معاشرے میں بطور ایس ایچ او خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
2008 میں جب سوات میں شدت پسندی عروج پر تھی تو نیلم شوکت گھر سے شٹل کاک برقع پہن کر پبلک ٹرانسپورٹ میں پولیس لائن پہنچتی تھیں۔
آج بھی ملاکنڈ ڈویژن میں کسی بھی خاتون کے لیے بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ روایتی طور پر خواتین یا تو عبایا اور یا بڑا دوپٹہ جسے مقامی زبان میں ’پڑونے‘ کہتے ہیں، پہنے ہوئے نظر آتی ہیں۔
نیلم شوکت بھی دفتر جانے یا کارروائی کے لیے باپردہ ہو کر نکلتی ہیں۔ ’ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ ہم بغیر پردے کے نہیں نکل سکتے۔ تو اب دوران ڈیوٹی بھی عادت بن گئی ہے، اس لیے اب کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بلکہ کورونا کے بعد ماسک پہننے سے اور بھی آسانی ہو گئی ہے۔‘

خیبر پختونخوا کی پولیس میں خواتین کمانڈوز بھی موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سوات کے بارے میں عمومی تاثر ہے کہ ایک سخت معاشرہ ہے لیکن اب حالات پہلے سے بہتر ہو چکے ہیں۔ لوگ اب خواتین کو بطور پولیس اہلکار دیکھنا قبول کر رہے ہیں۔ اور خواتین اہلکاروں کی موجودگی یا خواتین پولیس سٹیشن پر آنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا۔‘
ان کے ماتحت 22 خواتین اہلکار کام کرتی ہیں اور وہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی ہیں جو خواتین پر تشدد، منشیات یا گداگری میں ملوث ہیں۔
نیلم شوکت نے بتایا کہ چیلنجز ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن ان سے مناسب طریقے سے نمٹنا ضروری ہوتا ہے۔
’پولیس کا کام آسان نہیں۔ 24 گھنٹے اور ہفتے کے سات دن ہر وقت الرٹ پر ہوتی ہوں، گھر پر بھی ہوں تو مجھے دیکھنا ہوتا ہے۔ کبھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنا ہوتا ہے، کبھی پولیس سٹیشن اور کبھی وی وی آئی پی کی ڈیوٹی۔ اسی طرح خواتین کے لیے رات کی ڈیوٹی ایک بڑا چیلنج بن جاتی ہے۔ بعض اوقات کسی کیس کے سلسلے میں دوسرے ضلع میں دو دو، تین تین دن رکنا پڑتا ہے جو فیملی والی خواتین کے لیے تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
نیلم شوکت کے مطابق پہلے لوگ سوال کرتے تھے کہ پولیس میں کیوں گئی ہیں لیکن اب خود پوچھتے ہیں کہ پولیس میں کیسے نوکری حاصل کی جا سکتی ہے۔

شیئر: