Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

قیمتی پتھروں کی برآمد و درآمد پر پابندی سے تاجر کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟

ضیا اللہ خان کے مطابق گلگت بلتستان، کشمیر اور خیبر پختونخوا میں قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)
پاکستان کی وزارت تجارت نے قیمتی دھاتوں، زیورات اور قیمتی پتھروں کی درآمدات و برآمدات پر 60 دن کے لیے عارضی طور پر پابندی عائد کی ہے۔
وزارت تجارت کی جانب سے جاری کردہ ایس آر او کے مطابق یہ اقدام درآمدات و برآمدات (کنٹرول) ایکٹ 1950 کے سیکشن 3 کی ذیلی شق (1) کے تحت کیا گیا ہے۔ اس کے تحت ’قیمتی دھاتوں، زیورات اور قیمتی پتھروں کی درآمدات و برآمدات کے آرڈر 2013‘ کو 60 دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
اس معطلی کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے میں سونے، زیورات اور قیمتی پتھروں سے متعلق جو قواعد و ضوابط نافذ تھے، وہ اب عارضی طور پر معطل رہیں گے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزارت تجارت کے اعلٰی حکام نے بتایا کہ یہ فیصلہ قیمتی پتھروں کے غلط استعمال اور سمگلنگ کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ایک جامع پالیسی ترتیب دے کر قیمتی پتھروں کے شعبے کو ترقی دی جا سکے اور برآمدات و درآمدات کو منظم انداز میں بحال کیا جا سکے۔
اس حوالے سے پاکستان جیم سٹون اینڈ منرلز ایسوسی ایشن آف مائننگ، پروسیسنگ اینڈ ٹریڈنگ کے چیئرمین ضیا اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت نے ایک پرانے ایس آر او کو معطل کرتے ہوئے پابندی عائد کی ہے، مگر تاجروں کو اس اقدام کی کوئی سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان میں مقامی سطح پر اور بالخصوص بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتی پتھر فروخت کر کے خاصا زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ اس پابندی سے پہلے ہی زبوں حال یہ شعبہ مزید تنزلی کا شکار ہو جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان کی ایسوسی ایشن نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف ایک اجلاس طلب کیا ہے جس میں لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔
ضیا اللہ خان کے مطابق ’گلگت بلتستان، کشمیر اور خیبر پختونخوا میں قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور یہاں ہزاروں افراد اس صنعت سے منسلک ہیں۔ صرف گلگت بلتستان میں ایک لاکھ افراد کا روزگار اس صنعت سے جڑا ہوا ہے اور اگر کاروبار بند ہوا تو بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا ہو گی۔‘

پاکستان میں پائے جانے والے قیمتی پتھر

آل پاکستان کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف رف اینڈ ان پالشڈ پریشیس اینڈ سیمی پریشیس سٹونز کے چیئرمین افتخار احمد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی ایک طویل فہرست موجود ہے، جن میں کئی عالمی معیار کے نایاب اور دلکش پتھر شامل ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں زمرد ہے، جو سوات کے علاقے فیم گول اور شانگلہ سے حاصل ہوتا ہے اور اپنی گہری سبز رنگت اور شفافیت کی بنا پر دنیا کے بہترین زمردوں میں شمار ہوتا ہے۔

افتخار احمد نے کہا کہ پاکستانی زمرد اپنی گہری سبز رنگت اور شفافیت کی بنا پر دنیا کے بہترین زمردوں میں شمار ہوتا ہے۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)

اُن کا کہنا تھا کہ اسی طرح یاقوت گلگت بلتستان کے نائٹور سے نکلتا ہے، جو اپنی سرخی مائل دلکشی کے باعث زیورات میں بے حد پسند کیا جاتا ہے جبکہ نیلم کشمیر اور بلوچستان کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے اور اپنی نیلی رنگت، مضبوطی اور شفافیت کے باعث قیمتی پتھروں میں خاص مقام رکھتا ہے۔
’ایکوامیرین ایک ہلکے نیلے یا سبز رنگ کا شفاف پتھر ہے، جو گلگت، سکردو اور چترال کے علاقوں میں دستیاب ہے۔ ٹورملین وادی بشام اور گلگت میں مختلف رنگوں میں پایا جاتا ہے، بالخصوص سبز، گلابی اور نیلے رنگ کے ٹورملین خاص طور پر مقبول ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ٹوپاز سکردو اور شگر کے علاقوں میں پایا جاتا ہے اور سنہری، نیلا یا شفاف رنگت کا حامل یہ پتھر زیورات میں استعمال ہوتا ہے، جبکہ گارنیٹ چترال اور گلگت کے پہاڑی علاقوں میں دستیاب ہے اور اس کا گہرا سرخ یا جامنی رنگ روایتی زیورات میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔‘
افتخار احمد کے مطابق کوارٹز نامی قیمتی پتھر بھی سوات اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے، اور اپنی شفاف یا دودھیا رنگت کے باعث اکثر ہیرے کے سستے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پیرڈوٹ بلوچستان میں دستیاب زیتونی سبز رنگ کا خوبصورت پتھر ہے جو گرمیوں میں زیورات میں خاصا پسند کیا جاتا ہے۔ زرقون گلگت اور بلوچستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک چمکدار، شفاف اور پائیدار پتھر ہے جسے اکثر ہیرے کے کم قیمت متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

وزارت تجارت نے قیمتی دھاتوں، زیورات اور قیمتی پتھروں کی درآمدات و برآمدات پر 60 دن کے لیے عارضی طور پر پابندی عائد کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جیم سٹون اینڈ منرلز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ضیا اللہ خان کے مطابق ’پاکستان کا جیم سٹون کا شعبہ ابھی ترقی کے مراحل میں ہے، مگر صرف گلگت بلتستان اور بلوچستان میں اتنے ذخائر موجود ہیں کہ ان کی برآمد سے سالانہ پانچ ارب ڈالر حاصل کیے جا سکتے ہیں۔‘

تاجروں کا نقصان اور بین الاقوامی ساکھ کا مسئلہ

کمرشل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف کے چیئرمین افتخار احمد نے کہا کہ اگر حکومت نئی پالیسی بنانا چاہتی تھی تو برآمدات کو بند کیے بغیر یہ عمل مکمل کیا جا سکتا تھا۔ اس سے مقامی کاروبار متاثر نہ ہوتا اور حکومت کو بھی فائدہ ہوتا۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’برآمدات کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر وہ تاجر ہو رہے ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک آرڈرز لے رکھے تھے اور اب وہ قیمتی پتھر اپنے گاہکوں کو نہیں بھیج پا رہے، جس سے نہ صرف مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔‘
افتخار احمد کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں قیمتی پتھر نکالنے کے لیے نہ جدید ٹیکنالوجی دستیاب ہے اور نہ ہی حکومت تعاون کرتی ہے۔ اس وجہ سے 80 فیصد قیمتی پتھر ضائع ہو جاتے ہیں۔ اگر سہولیات دی جائیں تو ہم تیار شدہ پتھر برآمد کر کے زیادہ زرِمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘

قیمتی پتھروں کے بڑے خریدار ممالک کون سے ہیں؟

افتخار احمد نے پاکستانی پتھروں کے بڑے خریدار ممالک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ چین سب سے بڑا خریدار ملک ہے جو ان پتھروں کو جدید ٹیکنالوجی سے تراش کر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔

یاقوت گلگت بلتستان کے نائٹور سے نکلتا ہے، جو اپنی سرخی مائل دلکشی کے باعث زیورات میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اُن کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ امریکہ زمرد، ٹورملین اور کوارٹز جیولری اور ہیلتھ سٹونز کی برآمد کے لیے مقبول ہے جبکہ تھائی لینڈ، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں بھی پاکستان کے قیمتی پتھر بھیجے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت کئی یورپی ممالک میں بھی قیمتی پتھر برآمد کیے جاتے ہیں۔‘
افتخار احمد نے مزید کہا کہ ہم حکومت کے ساتھ قیمتی پتھروں کی سمگلنگ اور ان کے غلط استعمال کو روکنے میں مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں لیکن قانونی تاجروں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ وفاقی وزارت تجارت کی قائم کردہ کمیٹی شاید یہ سمجھتی ہے کہ جیم سٹون صرف ایک قسم کا پتھر ہوتا ہے، حالانکہ اس میں مختلف اقسام شامل ہیں۔ کچھ پتھر بطور خام مال برآمد کیے جاتے ہیں، جبکہ کچھ مقامی جیولری میں استعمال ہوتے ہیں۔ حکومت کو فیصلے کرتے وقت ان اقسام اور تاجروں کی زمینی حقیقت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

 

شیئر: