Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
جمعرات ، 12 جون ، 2025 | Thursday , June   12, 2025
جمعرات ، 12 جون ، 2025 | Thursday , June   12, 2025

عسیر میں کاشتکار ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے مویشیوں اور ہل کا استعمال کرتے ہیں

فصل کا موسم آتا ہے تو کاشتکار احتیاط سے زمین کو تیار کرتے ہیں (فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کے عسیر ریجن میں کاشتکار آج بھی مویشیوں اور ہاتھ سے بنے ہوئے اوزاروں کو استعمال میں لا کر اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور ان روایتی طریقوں کو کام میں لاتے ہیں جو نسل در نسل ان تک منتقل ہوئے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق جب فصل کا موسم آتا ہے تو کاشتکار احتیاط سے زمین کو تیار کرتے ہیں جس میں یا تو وہ جدید مشینری یا پھر لکڑی کے بنے ہوئے ہل سے کام لیتے ہیں۔
اس عمل سے زمین کی مٹی میں زرخیزی پیدا ہو جاتی ہے، خاص طور پر پہاڑی علاقے کے قریب کی زمینوں میں جہاں سڑک قریب نہیں ہوتی اور جدید مشینری پہنچ نہیں سکتی یا فائدہ مند نہیں رہتی۔
حال ہی میں ایس پی کے نامہ نگاروں نے ایسی ہی ایک فیلڈ کا دورہ کیا۔ کاشتکاروں اور پرانے انداز سے زمین جوتنے کے مقامی ماہرین سے گفتگو کی۔
کاشتکار مسفر القحطانی اور ڈاکٹرعبداللہ نے جو سائنسی تحقیق میں ریجنل زرعی کیلنڈر پر توجہ دیتے ہیں، بتایا کہ عسیر کے کاشتکاری کلینڈر میں موسم کس طرح فصل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
عسیر کے کاشتکار سورج اور چاند کے درمیان بننے والی فلکی وضع سے تغیر اور موسم کی مجموعی صورتِ حال سے زمین جوتنے اور بیج بونے کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرتے ہیں جب پیدوار بہترین ہو سکے۔
انھوں نے بتایا کہ الذراعین کا سیزن بہار کے موسم میں پودے لگانے کے آغاز کی علامت ہوتا ہے جبکہ الثریا غلے اور باجرے کے لیے اچھا سیزن تصور کیا جاتا ہے۔ موسمِ خزاں سے قبل الھنا کا سیزن مٹی یا زمین کی تیاری کے لیے اہم خیال کیا جاتا ہے۔

زرعی کاموں یا کاشتکاری اور فلکیاتی علم کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ (فوٹو: ایس پی اے)

مسفر القحطانی بیلوں کے ساتھ ساتھ، ہل چلانے کے لیے آباو اجداد سے منتقل ہونے والے طریقوں اور اوزار استعمال کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ زرعی کاموں یا کاشتکاری اور فلکیاتی علم کے درمیان گہرا تعلق ہے۔
ان کے بقول ’ہم موسموں کا حساب رکھتے ہیں اور اپنے بزرگوں کی دانش پر چلتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ کب زمین کو جوتنا ہے اور کب اسے ’آرام کرنے کے لیے‘ چھوڑ دینا ہے۔‘
مسفر القحطانی نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’روایتی انداز میں زمین جوتنے کے لیے ہل اور مویشیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘
’یہ محض ایک تکنیک نہیں ہے۔ یہ ایک طرزِ زندگی ہے جس میں ہم زمین کا احترام کرتے ہیں اور اس کے آرام کے اوقات اور زرخیزی کے لمحات کے ’لحن‘ یا آہنگ کو سمجھتے ہیں۔‘

فصل کی پیدوار اور غذائی کوالٹی کو بڑھانے کے لیے چار مرحلے ہیں (فوٹو: ایس پی اے)

کاشتکارعبداللہ عبدالرحمن الاسمری بتاتے ہیں کہ ہل چلانے کے لیے ایک سے زیادہ افراد چاہییں۔ دو کسان مل کر کام کرتے ہیں: ایک ہل کو متوازن رکھتا ہے جبکہ دوسرا توازن کے ساتھ زمین میں بیج بوتا ہے۔
’جب زمین جوتنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے، تو دو میٹر چوڑے لکڑی کے اس ہل کو، جسے بیل یا اونٹ، زمین کی تازہ پلٹی ہوئی مٹی کے اندر کھینچتے ہیں، زمین کو ہموار کرنے اور بیجوں کو پرندوں یا موسم کی شدت مثلاً ہوا یا حدت سے بچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘
عبداللہ عبدالرحمن الاسمری کہتے ہیں کہ ’ہمیں ترقی ضرور کرنی ہے لیکن ہم عسیر کے زرعی ورثے کو ترک بھی نہیں کر سکتے۔ نئی اور نوجوان نسل کو بتانا ضروری ہے کہ کاشتکاری کے لیے روایتی طریقوں کا استعمال بھی لازمی ہے۔‘
’یہ طریقے صرف محنت نہیں بلکہ زندگی کا وہ طرزِ عمل ہیں جس پر ہمارے آباو اجداد صدیوں سے انحصار کرتے آئے ہیں۔‘

مویشیوں کے ذریعے ہل چلانے سے زمین کو فوائد حاصل ہوتے ہیں (فوٹو: ایس پی اے)

فصل کی پیدوار اور غذائی کوالٹی کو بڑھانے کے لیے اس عمل میں چار خاص مرحلے ہیں۔ پہلے زمین کے نیچے کی مٹی کو اوپر اور اوپر کی مٹی کو نیچے کرنا، پھراسے توڑنا تاکہ اس میں پانی کا گزر بہتر طور پر اور آسانی سے ہو سکے۔ تیسرے مرحلے میں بیج بونے کے لیے صحیح سمت کا تعین کرنا اور آخری مرحلے میں بیج کو احتیاط اور توازن کے ساتھ زمین کے حوالے کرنا شامل ہے۔
بہت سے کاشتکار کہتے ہیں کہ موجودہ جدید مشینری کے باوجود مویشیوں کے ذریعے ہل چلانے سے زمین کو وہ فوائد حاصل ہوتے ہیں جو مشینں سے نہیں مل سکتے۔
ان کا خیال ہے کہ روایتی طریقوں سے کاشت کے عمل پر کسان کا زیادہ کنٹرول ہوتا ہے اور اس سے مٹی کی زرخیزی بھی بہتر ہوتی ہے اور قدرتی ایندھن پر انحصار بھی کم رہتا ہے۔
عسیر میں روایتی انداز میں زمین جوتنا کاشتکاری سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے مملکت کی ثقافتی شناخت بھی نمایاں ہوتی ہے اور لوگوں کا زمین کے ساتھ صدیوں پرانا رشتہ بھی قائم رہتا ہے۔

 

شیئر: