ماچا یا گرین ٹی جو کبھی جاپان میں تقاریب کا ضروری حصہ ہوا کرتی تھی، آج کل سعودی عرب میں بہت مقبول ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے لوگوں کی دلچسپی صحت مندی میں بڑھ رہی ہے، ذائقے کی ترجیحات بتدریج تبدیل ہوئی ہیں اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ انسانی زندگی کو اچھے انداز سے گزرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں
-
بڑھتی عمر کے ساتھ صحت مند رہنے کے لیے کون سی غذائیں فائدہ مند؟Node ID: 888272
-
ہفتۂ ماحولیات 2025: سرسبز و شاداب اور صحت مند ملک توجہ کا مرکزNode ID: 888661
عرب نیوز کے مطابق اس رجحان کی تصدیق ڈیٹا سے بھی ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کےمطابق سعودی عرب کی چائے کی مارکیٹ جس میں ماچا شامل ہے۔ 140.14 ملین ڈالر سے تجاوز کر کے 2033 تک 229.24 ملین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
پیکٹوں میں بند گرین ٹی کی برآمد 2020 سے 2023 کے دوران تقریبا دگنی ہو گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ کوالٹی اور صحت بہتر بنانے والے مشروبات کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس بڑھتی ہوئی طلب کے عکاس مملکت میں کیفے کے مینیو اور سوشل میڈیا کی فیڈ ہے۔ ماچا لاٹے جو کبھی مخصوص کیفے تک محدود ہوتی تھی، اب ہر دوسرے کیفے میں مل جاتی ہے اور گھروں کے کچن میں بھی پائی جاتی ہے۔
خواہ ماچا برف کے ساتھ چمکدارگلاس سے بنے کپ میں پیش کی جائے یا اوٹ مِلک کے ساتھ، ماچا محض ایک مشروب نہیں ہے بلکہ اس سے آگے کی چیز ہے۔ یہ ایک مُوڈ ہے، آپ کی پسند کا ذاتی بیان ہے اور بہت سے افراد کے لیے ماچا دن کے آغاز کا صحت مندانہ طریقہ ہے۔
دمام میں 19 سالہ سارہ انس کو ماچا کا ذائقہ اب تک یاد ہے جب انھوں نے دو ہزار نو میں پہلی مرتبہ اسے پیا تھا۔

’میرے والد کو نئی نئی چیزیں ٹرائی کرنا پسند ہے۔ میں نے جب پہلی مرتبہ ماچا کو چکھا تو یہ مجھے اس کا ذائقہ زیادہ اچھا نہیں لگا۔ لیکن 2021 میں ماچا کی مقبولیت زیادہ بڑھ گئی تو میرا دل چاہا کہ کسی مقامی کیفے میں ماچا کو میں بھی ٹرائی کروں۔‘
اب سارہ تقریباً روزانہ ماچا پیتی ہیں۔ ’وہ کہتی ہیں کہ شاید آپ کو عجیب لگے لیکن میرے معدے کو یہ کافی کی طرح بھاری نہیں کرتی۔ ماچا پی کر میں اور ریلیکس ہو جاتی ہوں اور یہ مجھے بہتر انداز سے توانائی دیتی ہے۔‘
ریاض میں 26 سالہ امل المطیری ہر صبح کا آغاز ماچا سے کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے یخ بستہ ماچا زیادہ اچھی لگتی ہے۔ ساتھ میں ونیلا دودھ لیتی ہوں تاکہ اس کا ذائقہ اور بہتر ہو جائے اور یہ ہلکی بھی لگے۔‘
انھیں ماچا میں اس وقت دلچسپی پیدا ہوئی جب ان کے سامنے اس کے فوائد آئے۔’ اس سے مجھ پُرسکون توانائی ملتی ہے جس میں ہیجانی کیفیت نہیں ہوتی جو کافی پی کر ہوتی ہے۔ ماچا سے میں دیر تک فوکس کر سکتی ہوں‘۔

امل جس پُرسکون توانائی کی بات کر رہی تھیں جسے اکثر کیفین کا ’صاف ستھرا‘ تجربہ بھی کہا جاتا ہے، اس نے ماچا کو خصوصاً طلبا اور پروفیشنلز میں بہت مقبول بنا دیا ہے۔
انس اگر اپنی جامعہ کے کیمپس میں ہوں تو انھیں ہر حال میں ماچا چاہیے۔ خصوصاً کلاس شروع ہونے سے پہلے۔ وہ کہتی ہیں ’اس پی کر مجھے یونیورسٹی میں دن گزارنے کے لیے توانائی مل جاتی ہے۔‘
لیکن ماچا عملی ضرورت سے زیادہ ایک اندازِ زندگی بن چکا ہے کیونکہ لوگ اسے صحت مند مشروب کے طور پر پیتے ہیں اور اس کے ظاہری شکل کے باعث بھی۔
ماچا کی پیداوار 2010 سے 2023 کے درمیان 185 فیصد تک بڑھی ہے۔ اب اس کی طلب اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے کہ ماچا کی قلت کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جاپان میں ماچا کی پیداور سے وابستہ اہم کمپنیوں نے اس کی برآمد کو محدود کر دیا ہے تاکہ ملک میں طلب پر برا اثر نہ پڑے۔
حال ہی میں سعودی عرب میں ہونے والی ایک سٹڈی کے مطابق نصف شرکا نے کہا کہ ماچا سے وزن کو بہتر مینج کیا جا سکتا ہے اور یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ماچا کے استعمال میں بھی اعتدال لازم ہے۔ ماچا کو زیادہ مقدار میں پینے سے جسم میں آئرن کا انجذاب بڑھ جاتا ہے لہذا ماچا ہر کسی کے لیے نہیں ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں کافی پینے کے کلچر کی جڑیں کافی گہری ہیں وہاں ماچا اس روایت کو بدل نہیں رہی بلکہ کچھ نیا پیش کرتی ہے: جو ذائقے، اندازِ زندگی اور ذاتی پسند کا امتزاج ہے۔