Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

’پاکستان میں گزرے لمحات یادگار‘، افغان باشندوں کا ’مِنی چترال‘

افغان شہری عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ’چترال ہمارا دوسرا گھر ہے اور اس سے ہمارا رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
پاکستان میں کئی دہائیوں سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے اپنے ملک واپس روانہ ہو رہے ہیں جو اپنے ساتھ یہاں گزرے ہوئے خوش گوار لمحات کی یادیں بھی لے کر جا رہے ہیں۔
تاہم افغانستان کے صوبہ بدخشاں کے شہریوں نے پاکستان سے محبت اور اپنے احساسات کا اظہار انوکھے انداز میں کیا ہے۔ 
بدخشاں کے چھوٹے سے گاؤں کشم کے رہائشی گذشتہ تین دہائیوں سے خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں رہائش پذیر تھے، وہ 30 سال بعد جب اپنے آبائی گاؤں کشم پہنچے تو اس کا نام چترال سے منسوب کر کے مِنی چترال رکھ دیا۔
مقامی شہری عبدالحمید نے اردو نیوز سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’سوویت یونین کے حملے کے بعد افغانستان کے بہت سے شہری ہجرت کرکے پاکستان کے مختلف علاقوں میں چلے گئے تھے، اس دوران کشم گاؤں کے بیشتر باشندے چترال میں آباد ہو گئے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم گذشتہ 25 سے 30 برسوں سے چترال میں مقیم تھے، اس دوران ہمارے رہن سہن اور زبان پر چترال کی ثقافت کا گہرا اثر پڑا ہے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب چترالی ہیں۔‘
افغان شہری عبدالحمید کا کہنا تھا کہ ’چترال میں ہمیں اپنائیت کا احساس دلایا گیا۔ لوگوں نے بہت پیار اور عزت دی۔ وطن واپس جانے کی خوشی اپنی جگہ مگر چترال سے جُدائی کا غم ہمیں اُداس کر دیتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چترال کو الوداع کہہ کر افغان باشندے کچھ دن پہلے اپنے آبائی گاؤں کشم واپس آچکے ہیں۔‘ 
افغان شہری عبدالحمید کے مطابق کشم گاؤں کے بیشتر شہری چترال کی زبان کھوار بولتے ہیں اور اسی لیے عمائدین نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس علاقے کا نام چترال رکھ دیا جائے تاکہ چترال سے ہماری محبت زندہ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کشم گاؤں میں 600 کے قریب گھرانے بستے ہیں جن کی اکثریت کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی سے جُڑا ہے۔

چترالی عوام کے مطابق بدخشاں کے باشندوں نے چترال کے ماحول کو پُرامن رکھنے میں بھرپور کردار ادا کیا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

انہوں نے مزید کہا کہ ’کشم گاؤں چترال کی طرح قدرتی حسن سے مالامال ہے اور یہاں لوگ بھی چترال کی طرح مہمان نواز اور ملنسار ہیں، اسی لیے دونوں علاقوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔‘
عبدالحمید نے کہا کہ ’وہ چترال میں افغان اور اُزبک قالینوں کا کاروبار کرتے تھے تاہم افغانستان واپس آکر وہ قالین کے ساتھ کھیتی باڑی بھی کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے گاؤں کی لڑکیاں چترال میں بیاہی گئی ہیں جبکہ کچھ لڑکیوں کی شادی افغانستان میں ہوئی ہے۔‘
افغان شہری عبدالحمید نے مزید بتایا کہ ’چترال ہمارا دوسرا گھر ہے اور پاکستان اور چترال سے ہمارا رشتہ ہمیشہ قائم رہے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ حالات بہتر ہونے کے بعد ویزہ لگوا کر دوبارہ پاکستان آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔‘ 
دوسری جانب چترال کے عوام نے افغان باشندوں کے جذبات اور احسسات پر اُن کا شکریہ ادا کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشم گاؤں کو چترال کا نام دینا افغان باشندوں کی محبت کی زندہ مثال ہے۔
چترالی عوام نے کہا کہ بدخشاں کے باشندوں نے چترال میں بہت اچھا وقت گزارا، انہوں نے چترال کے ماحول کو پُرامن رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ 
خیال رہے کہ افغانستان کے صوبہ بدخشاں میں پاک افغان بارڈر کے قریب ہی واخان پٹی واقع ہے جس کے ساتھ تاجکستان کے سرحدی علاقے بھی ملے ہوئے ہیں۔
اس صوبے میں زیادہ بولی جانے والی زبان دری ہے۔ افغانستان کے صوبہ بدخشاں سے ضلع چترال کا شاہ سلیم بارڈر متصل ہے۔

 

شیئر: