پاکستان کے صوبہ پنجاب کے کسی نہ کسی حصے میں ہر روز کسی ماں کی آنکھ دروازے پر ٹکی ہوتی ہے، کوئی باپ ہر آہٹ پر چونکتا ہے اور بہن بھائی کسی اجنبی چہرے میں اپنے پیارے کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ گمشدگی کا دُکھ، ایک ایسا خلا ہے جو وقت کے ساتھ بھرنے کی بجائے مزید گہرا ہوتا ہے۔
پاکستان میں بھی متعدد بچے یا خصوصی افراد اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل تک کوئی مربوط نظام موجود نہیں تھا تاہم پنجاب میں گزشتہ دو برسوں سے ایک خصوصی اقدام کے ذریعے بچھڑے ہوؤں کو اپنوں سے ملانے کا سلسلہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظام میں جدت آتی رہی اور اب جدید ٹیکنالوجی، خصوصاً مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو اس نظام کا حصہ بنایا گیا ہے جہاں اپنوں سے بچھڑے افراد کو اُن کے خاندانوں سے ملایا جا رہا ہے۔
’میرا پیارا‘ کی ابتدا کیسے ہوئی؟
جہاں پہلے ایک گمشدہ بچہ یا بے سہارا بزرگ سڑک کنارے یا کسی چوراہے پر مارا مارا پھرتا تھا، اب وہی بچہ یا بزرگ مصنوعی ذہانت سے لیس ٹیکنالوجی کے ذریعے خودکار نظام کا حصہ بنا دیا جاتا ہے جہاں اُن کی اپنے پیاروں سے ملانے کے لیے تگ و دو مزید آسان ہو جاتی ہے۔
سال 2023 میں نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی ہدایت پر پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے ’میرا پیارا‘ کے نام سے ایک قدم اٹھایا گیا۔
اس حوالے سے ’میرا پیارا‘ کے ترجمان عارف علی رانا نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت ایک گمشدہ بچے کی وجہ سے حکومت نے اس طرف توجہ دی۔‘
ان کے مطابق ’نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی گوجرانوالہ میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے دورے پر تھے جہاں ان کی ملاقات ایک ایسے بچے سے ہوئی جو چھ برس قبل لاہور میں اپنے خاندان سے بچھڑ گیا تھا۔
’انہوں نے اسی وقت لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر مستنصر فیروز کو اس بچے کے ورثا کو تلاش کرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔‘

ان کے مطابق اس وقت 9 ٹیموں نے بچے سے سوال و جواب کے سیشنز کیے لیکن ’بچہ صرف یہ بتاتا رہا کہ اس کے والد ریلوے سٹیشن کے قریب رکشہ چلاتے تھے۔‘
نگراں وزیراعلیٰ کی ہدایات کے مطابق پولیس مسلسل بچے کے ورثا کو تلاش کر رہی تھی۔ اس وقت ہر متعلقہ اہلکار کے ذہن میں بچے کے ورثا کی تلاش کا ٹاسک گھوم رہا تھا۔
عارف علی رانا نے بتایا ’ہمارے ہی ایک اہلکار مصری شاہ کے قریب ایک موچی کے پاس اپنے جوتے پالش کروانے گئے۔ انہوں نے اپنے موبائل میں موجود بچے کی تصویر اور باقی تفصیلات موچی کو بتائیں جنہوں نے بتایا کہ یہ بچہ اسی علاقے میں رہتا تھا اور اُس کے والد رکشہ چلاتے تھے۔ دو دن کے اندر اس بچے کی والدہ سے رابطہ ہوا اور وہ اپنے گھر پہنچ گیا لیکن معلوم ہوا کہ اس بچے کے والد اسی تلاش میں وفات پا چکے تھے۔‘
ترجمان ’میرا پیارا‘ کے مطابق اسی ایک کیس کی بدولت حکومت کو ایک ایسے مربوط نظام کی تشکیل کا خیال آیا جس کے ذریعے گمشدہ افراد کو اپنوں سے ملایا جا سکے۔
اپریل 2023 میں اس کا افتتاح کیا گیا اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت آتی رہی۔

ورچوئل سینٹر فار چائلڈ سیفٹی کی انچارج عروج فاطمہ بتاتی ہیں کہ اس سے قبل گمشدہ لوگوں کو اپنوں سے ملانے کا مناسب نظام موجود نہیں تھا۔
ان کا اس نظام کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس جب کوئی کیس آتا ہے، تو ہم اسے نوٹ کر کے اپنے سسٹم میں محفوظ کر لیتے ہیں جس کے بعد مختلف ٹیموں کے ذریعے ان کی تفصیلات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کیس حل ہونے تک اس پر نظر رکھی جاتی ہے۔ ‘
پنجاب سیف سٹی اتھارٹی میں اب تک ’میرا پیارا‘ میں 54 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں سے 48 ہزار کیسز حل کیے جا چکے ہیں۔ ان میں 24 ہزار ان بچوں یا بزرگوں کے کیسز ہیں جنہیں اپنے خاندان سے دوبارہ ملایا گیا۔
عروج فاطمہ کے مطابق ’ہمارا نظام ذرا مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ جب ہمیں سڑکوں پر رہنے والے بچے ملتے ہیں، تو ہم ان کی تفصیلات اور تصاویر کا باقاعدہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انہیں پولیس سٹیشن بھیجا جاتا ہے۔ اگر ان کے خاندان کا پتہ نہ چلے، تو انہیں بحالی کے مراکز جیسے چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا سپیشل ہومز بھیج دیا جاتا ہے۔ تاہم ہم مسلسل ان کے خاندان کو ٹریس کرتے رہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’میرا پیارا‘ ٹیم ان مراکز میں جا کر گمشدہ بچوں یا بزرگوں کے انٹرویوز ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کرتی ہے جنہیں دیکھ کر لوگ ان کی ٹیم سے رابطہ کرتے ہیں۔
جب مصنوعی ذہانت کے ذریعے لاپتا بچے کو تلاش کیا گیا
گمشدہ یا اپنوں سے بچھڑے ہوئے افراد کو اُن کے خاندانوں سے ملانے کے لیے صرف انٹرویوز یا سوشل میڈیا پر ہی انحصار نہیں کیا جاتا بلکہ اب اس نظام کو مصنوعی ذہانت سے بھی جوڑا جا چکا ہے۔

عروج فاطمہ کے بقول ’ہمارے پاس ڈیٹا میچنگ کے دو نظام ہیں۔ اگر کسی فرد کی تصویر موجود نہیں تو ان کا نام، شکل و صورت، چہرے کے خدوخال، چہرے پر موجود نشانات اور دیگر ابتدائی معلومات کو اکھٹا کر کے سسٹم میں رکھا جاتا ہے۔ تصویر ہونے کی صورت میں شکل و صورت کی میچنگ کی جاتی ہے۔ اکثر افراد ایسے ہوتے ہیں جو کئی برس سے لاپتا ہوتے ہیں اور ان کے خدوخال بدل جاتے ہیں لیکن مصنوعی ذہانت کے ذریعے ان کی میچنگ ہوجاتی ہے۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ یہ ڈیٹا سسٹم میں موجود ہوتا ہے اور صوبے بھر سے رپورٹس اس میں شامل کی جاتی ہیں۔
’اگر شکل و صورت یا دیگر معلومات کی بنیاد پر کوئی بھی چیز میچ ہوجائے تو ہمارا سسٹم خودکار نظام کے تحت ایک الرٹ جاری کرتا ہے جس کے بعد تصدیق کا عمل شروع کیا جاتا ہے اور لاپتا فرد یا بچے کا اُن کے خاندان سے رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔‘
مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب تک متعدد افراد کو اپنوں سے ملایا جا چکا ہے۔
اس حوالے سے عروج فاطمہ نے ایک کیس کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس علی نامی ایک بچے کا کیس آیا جو سیالکوٹ میں اپنے خاندان سے بچھڑ گیا تھا۔ ہم نے ابتدائی معلومات اور تصویر اپنے سسٹم میں درج کیں۔ اس کے بعد ہمیں جہلم سے ایک خاتون کی کال موصول ہوئی جس نے بتایا کہ انہیں ایک لاوارث بچہ ملا ہے۔ ہم نے ان سے تصویر اور ابتدائی معلومات مانگ کر سسٹم میں درج کر لیں جس کے بعد فوری طور پر مصنوعی ذہانت نے ہمیں ایک الرٹ جاری کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بچہ سیالکوٹ سے ہی لاپتا ہوا تھا۔ یوں ہم نے اس بچے کو ایک ماہ کے بعد اپنوں سے ملایا۔‘

قوتِ گویائی سے محروم بزرگ جب اپنے خاندان سے ملے
’میرا پیارا‘ کے ساتھ ساتھ ’میری پہچان‘ کا نظام بھی یکساں طور پر کام کر رہا ہوتا ہے۔
اس نظام کے تحت ان افراد کے لیے کام کیا جاتا ہے جن کی عمر زیادہ ہو، وہ اپنی معلومات فراہم نہ کرسکتے ہوں یا وہ کسی معذوری کا شکار ہوں۔ اس صورت میں لاپتا شخص کے بائیو میٹرک پر انحصار کیا جاتا ہے۔
عروج فاطمہ بتاتی ہیں کہ ’بائیو میٹرک بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے کام کرتا ہے۔ ہمارے پاس جب ایسے کیسز آتے ہیں تو ان کو ’میری پہچان‘ کی ٹیم درج کرتی ہے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے وہ میچ ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے لاہور کے ایک خاندان سے بچھڑے ایک بزرگ شخص کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارے پاس سرگودھا سے ایک کیس رپورٹ ہوا جس کے مطابق ایک بزرگ شخص ملے تھے جو بول نہیں سکتے تھے۔ 'میری پہچان' کی ٹیم نے اس حوالے سے کام کیا اور ان کا بائیو میٹرک کروا کر سسٹم کو دے دیا گیا۔ مصنوعی ذہانت نے بائیو میٹرک کی تصدیق کرتے ہوئے میچنگ کی اور ہمیں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق لاہور سے ہے۔ ہم نے ان کا فیملی ٹری نکالا اور ان کے خاندان سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ وہ ایک سال قبل اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے۔‘

ان کے مطابق ان بزرگ کو ایک سال بعد اپنے خاندان سے ملوایا گیا۔
ترجمان ’میرا پیارا‘ کے مطابق لاپتا افراد یا بچھڑنے والوں سے متعلق معلومات فراہم کرنے یا کسی گمشدہ شخص کو پانے کی صورت میں پولیس ہیلپ لائن 15 پر کال کی جا سکتی ہے جبکہ پنجاب پولیس ایپ یا ’میرا پیارا‘ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی ان کی ٹیم کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔