Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

سعودی وژن 2030 : سعودیوں کی سوچ کی تشکیل نو کی بنیاد

سعودی عرب نے وژن 2030 کی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ وژن کے تحت متعین کردہ 1502 اقدامات میں سے 85 فیصد حاصل کیے جا چکے ہیں۔
اعداد و شمار کی سطروں کے پیچھے ایک عظیم داستان پوشیدہ ہے۔
یہ محض ترقی کی شرحوں، بیروزگاری کے اشاریوں یا رضا کاروں کی تعداد میں اضافے کی کہانی نہیں بلکہ وہ گہرائی ہے جوسعودی شہریوں کی روح اور جوہر میں وقوع پذیر ہوئی ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق سعودی وژن 2030 نہ تو کوئی روایتی پانچ سالہ منصوبہ تھا اور نہ ہی محض اقتصادی امنگوں کا منشور بلکہ یہ سوچ کی تشکیل نو اور صلاحیتوں کو بے خوف انداز میں مہمیز دینے کا ایک قومی سفر تھا۔
 فرد سے ادارے تک، خیال سے حقیقت تک۔
سعودی وژن 2030 صرف ایک اقتصادی منصوبہ نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی ذہنیت میں ایک بنیادی تبدیلی تھی۔
 جب تک بڑے منصوبے حقیقت میں بدلتے، تبدیلی پہلے ہی لوگوں کے دل و دماغ میں شروع ہو چکی تھی۔
 اس وژن نے سعودیوں کو اپنی اور اپنے ملک کی سمت تبدیل کرنے کی تحریک دی اور انہیں انتظار کرنے کے بجائے عمل کرنے، امید رکھنے کے بجائے عمل کرنے اور سستی سے تیزی کی طرف منتقل کیا۔
 یہ ایک ذہنی سفر تھا جو فرد سے شروع ہو کر پورے معاشرے تک پھیل گیا اور اس تبدیلی کا آغاز حقیقت میں اس وقت ہوا جب لوگوں نے سوچنا اور عمل کرنا شروع کیا۔
جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سعودی شہریوں میں بیروزگاری کی شرح کم ہو کر 7 فیصد تک آ گئی ہے تو ہم محض ایک کامیاب عدد نہیں پڑھتے بلکہ ایک ایسے نسل کی کہانی رقم ہوتی ہے جس نے انتظار پر قناعت نہ کی بلکہ ترقی کی گاڑی میں اپنی جگہ خود حاصل کی۔
اور جب ہم جانتے ہیں کہ  عمرہ زائرین کی تعداد 16.9 ملین سے متجاوز ہو چکی ہے تو یہ عدد فقط مقدار کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ معیار میں وقوع پذیر ہونے والی اس تبدیلی کا عکاس ہے کہ آج دنیا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو نہ صرف مقامات مقدسہ کی حیثیت سے جانتی ہےبلکہ انہیں انتظامی و تکنیکی مہارت کا عالمی نمونہ بھی تسلیم کرتی ہے۔
سعودی وژن 2030 تبدیلی کا محض وعدہ نہ تھا بلکہ یہ سنجیدگی میں ڈھلا ایک قومی عہد تھا۔
سنجیدگی پیش قدمی میں، نہ کہ ردعمل میں،سنجیدگی اختیار دینے میں نہ کہ محض معذرت یا تلافی میں، سنجیدگی سرمایہ کاری میں، نہ کہ فقط خرچ میں،سالانہ رپورٹ میں کامیابیاں درج ہوتی ہیں لیکن جو غیرمرئی حقیقت بیان نہیں کی جاتی اور جسے بیان کرنا لازم ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے خود سے بات کرنے کا انداز بدل لیا۔
ہم نے ’ہم امید کرتے ہیں‘ سے ’ہم عمل کرتے ہیں‘ تک کا فاصلہ طے کیا۔
’اگر‘ سے ’کب‘ کی جانب پیش رفت کی۔
یہ ذہنی انقلاب بذاتِ خود سب سے بڑی کامیابی ہے۔
اور آج جب آپ یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں تو محض اعداد و اشاریوں پر حیران نہ ہوں بلکہ ان چہروں کو تلاش کریں جنہوں نے ان خوابوں کو تعبیر دی۔
وہ سعودی نوجوان جس نے صفر سے اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی۔
وہ سعودی خاتون جو عالمی سطح پر ایک ڈیجیٹل منصوبے کی قیادت کر رہی ہے۔
وہ سرکاری ملازم جو ایک قومی پہل کاری کا قائد بن چکا ہے۔
اور وہ مکمل معاشرہ جو ایک صدا پر مجتمع ہو چکا ہے: ہم بہترین بننے کا عزم رکھتے ہیں۔
یوں رقم ہو رہی ہے داستانِ سعودی وژن 2030
اور یوں لکھا جا رہا ہے مستقبل کا تابناک باب۔
بے شک، سعودی وژن 2030 نے محض سرزمین کو نہیں بلکہ اس کے باسیوں کے ذہن و دل کو بھی یکسر بدل ڈالا۔
 

شیئر: