پاکستان کی تاریخی اور بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی ہے جو اِن دنوں ایک ایسے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے جس کا تصور پچھلی کئی دہائیوں سے نہیں کیا جا سکا تھا۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں اور یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں غیرقانونی رہائشیوں کا معاملہ ہے۔
’کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ عید سے پہلے اس ہوسٹل میں ایک ہزار سٹوڈنٹس رہ رہے تھے لیکن عید کے بعد جب کلاسز کا دوبارہ آغاز ہوا تو اب صرف 320 طلبہ رہ گئے ہیں۔ یعنی کم از کم سات سو طلبہ غیرقانونی طور پر رہائش پذیر تھے۔ اور یہ صرف ایک ہوسٹل کی بات نہیں ہے ہر ایک میں یہی صورت حال تھی۔ میں خود بھی اسی یونیورسٹی میں پڑھا ہوں اور اب پڑھا رہا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اتنی سختی نہیں دیکھی۔‘
یہ کہنا تھا ڈاکٹر علی کبیر کا جو خود بھی پنجاب یونیورسٹی کے ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح غیرقانونی رہائشی طلبہ کو نکالا گیا ہے اس کا تصور پہلے محال تھا۔‘
مزید پڑھیں
ماضی میں طلبہ تنظیموں کی یونیورسٹی انتظامیہ سے جھگڑوں کی خبریں موضوعِ بحث رہی ہیں اور انہی تنظیموں کی وجہ سے کبھی بھی کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو پائی۔
آپریشن کب اور کیسے ہوا؟
پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں رہائش پذیر ایک طالب علم موسیٰ نے بتایا کہ ’عید سے پہلے یہاں ہر ہاسٹل میں بار بار نوٹس چسپاں کیے جا رہے تھے کہ غیرقانونی طلبہ ہاسٹل خالی کر دیں۔ یہ نوٹس تو پہلے بھی لگتے تھے لیکن اس بار فضا میں گھٹن زیادہ تھی اور یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ بہت بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے۔ اور یہ بات ہر زبان پر عام تھی۔ اس لیے عید کی چھٹیوں میں اکثریت اپنے گھروں کو چلی گئی۔ جب واپس آئے تو صورت حال ہی بدل چکی تھی۔‘
عید کے دنوں میں پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کے ساتھ مل کر ہاسٹلز کے اندر آپریشن کیا اور تمام غیرقانونی طلبہ کے زیرِ استعمال ہاسٹل رومز خالی کروا لیے گئے۔ جبکہ ہاسٹل ایریا کو جانے والے راستوں پر تین ٹیرز میں سکیورٹی لگا دی گئی ہے۔ یعنی اب تین جگہوں پر شناخت کروانے کے بعد اپنے ہاسٹل کے کمرے میں جا سکتے ہیں۔ مرکزی داخلی دروازوں پر پولیس بھی تعینات ہے۔

70 سال پرانے قبضے ختم کروائے
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان ڈاکٹر خرم نے بتایا کہ ’نئے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی کو چارج سنبھالے چھ ماہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے آتے ساتھ پالیسی جاری کی کہ ہاسٹلز میں غیرقانونی آبادکاری ختم ہو گی۔
’اور پھر جب تحقیقات کا آغاز ہوا تو پتا چلا کہ ہاسٹلز میں تو طلبہ تنظیموں کا قبضہ ہے ہی لیکن یونیورسٹی ہاسٹلز کی زمین پر 70 سال سے 37 خاندان غیرقانونی طریقے سے آباد تھے اور ان کو زمین دینے والے خود یونیورسٹی کے ملازم تھے۔‘
ڈاکٹر خرم نے بتایا کہ ساری زمین واپس لی گئی اور اس کے بعد پوری یونیورسٹی میں تنظیموں کے لگے ہوئے اشتہارات اور لوگو ختم کروائے گئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہو سکا تھا۔
انہوں نے عید کی چھٹیوں میں آپریشن کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اُس وقت رش کم ہوتا ہے اس لیے آپریشن کی افادیت زیادہ تھی۔ آپ حیران ہوں گے کچھ تنظیموں کے زیرِ استعمال کمروں سے منشیات بھی برآمد ہوئی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کام کتنا ضروری تھا۔‘
یونیورسٹی کے ہاسٹلز کا کلچر بھی کافی حد تک بدل گیا ہے۔ خیال رہے کہ ہاسٹلز میں کل 7 ہزار طلبہ کی گنجائش ہوتی ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق دہائیوں سے بیس ہزار کے لگ بھگ طالب علم ان ہاسٹلز میں رہ رہے تھے۔ لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔
