خضدار سے شروع ہونے والا بلوچستان نیشنل پارٹی کا لانگ مارچ سردار اختر مینگل کی قیادت میں مستونگ پہنچ گیا ہے۔
بی این پی کے سابق رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ کا دعویٰ ہے کہ مستونگ اور کوئٹہ کے درمیان لکپاس کے مقام پر پولیس اور سکیورٹی فورسز نے کوئٹہ سے استقبال کے لیے آنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور 250 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔
بی این پی کوئٹہ کے نائب صدر طاہر شاہوانی ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ پولیس نے ٹنل کے اندر کنٹینر زکھڑے کرکے راستہ بند کر رکھا ہے، کارکنوں نے کنٹینرز کو ہٹانے کی کوشش کی تو پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِاہتمام دالبندین میں جلسہNode ID: 884948
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور کارکنوں کی گرفتاری، اُن کے خلاف مقدمات اور پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے جمعے کی صبح خضدار سے لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلٰی سردار اختر مینگل لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں۔
مارچ کے شرکا وڈھ سے خضدار، سوراب اور قلات سے گزر کر مستونگ پہنچے۔ اس دوران راستے میں جگہ جگہ اُن کا استقبال کیا گیا۔ حکومت نے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے قومی شاہراہوں پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کر دیے، جبکہ بعض مقامات پر خندقیں کھود کر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ قلات، مستونگ اور کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں دو روز سے موبائل انٹرنیٹ سروس بند رکھی گئی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے رکن اور ڈسٹرکٹ کوئٹہ کے صدر غلام نبی مری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے لانگ مارچ کی تفصیل سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں جمعے کی صبح 10 بجے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر مشتمل ایک بڑا قافلہ کوئٹہ کے لیے روانہ ہوا تھا، جو اس وقت مستونگ پہنچ چکا ہے۔
غلام نبی مری کا کہنا تھا کہ ’قومی شاہراہ پر جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرکے راستے بند کیے گئے ہیں جبکہ لک پاس کے قریب لانگ مارچ کو روکنے کے لیے خندقیں تک کھودی گئی ہیں۔‘

بی این پی کے رہنما نے کہا کہ ’ریاست کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ ایسے اقدامات بلوچستان کے مسائل کے حل میں رکاوٹیں پیدا کریں گے اور عوام میں اشتعال اور نفرتیں مزید بڑھیں گی۔‘
غلام نبی مری نے حکومت اور ریاستی اداروں سے اپیل کی کہ ’طاقت کا استعمال ترک کر کے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔‘
انہوں نے جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل اور غیر انسانی سلوک کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اقدامات نہ صرف بلوچ قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں بلکہ بلوچستان کی روایات کے بھی خلاف ہیں۔‘
غلام نبی مری کا کہنا تھا کہ ’صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر بات چیت کا راستہ اپنانا ہوگا تاکہ پائیدار امن کا قیام ممکن ہو۔‘
بی این پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت ہمارے لانگ مارچ کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘

’پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں وڈھ سے روانہ ہونے والا قافلہ قلات سے ہوتا ہوا مستونگ پہنچ چکا ہے، جہاں مختلف رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے قافلہ کوئٹہ کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘
’منگچر کے مقام پر بڑی تعداد میں کنٹینرز لگا کر راستہ بند کر دیا گیا ہے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ سردار اختر مینگل سمیت بی این پی کے دیگر قائدین کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے قلات سے کوئٹہ تک قومی شاہراہ پر جگہ جگہ خندقیں کھود کر راستے بند کر دیے ہیں، جس سے لانگ مارچ کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
آغا حسن بلوچ نے مزید بتایا کہ ’قلات سے کوئٹہ تک موبائل نیٹ ورک اور صوبائی دارالحکومت میں انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے جو کہ لانگ مارچ کو روکنے کی سازش کا حصہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی دارالحکومت میں بی این پی کے کارکنوں کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے، لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پارٹی اپنی جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔‘
آغا حسن بلوچ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کا حل تلاش کرے۔