Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025
اتوار ، 08 جون ، 2025 | Sunday , June   08, 2025

ٹرانسفارمر پر تنازع، 3 بھائیوں کے قتل اور پولیس افسران کی برطرفی کا باعث کیسے بنا؟

لڑائی زمین پر ٹرانسفارمر کے لیے بچھائی جانے والی بجلی کی تاروں سے شروع ہوئی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
چھ جنوری 2025 کی صبح تھی۔ ہر طرف پھیلی دھند میں پنجاب کے شہر فیصل آباد کے علاقے تاندلیانوالہ صدر پولیس سٹیشن میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
جیسے ہی افق پر سورج نمودار ہونے والا تھا تو اسی پولیس سٹیشن کی ایک عقبی دیوار پر کھرل برادری کے پانچ سے چھ افراد خفیہ طریقے سے سیڑھی لگا کر چڑھنے لگے۔ یہ پولیس سٹیشن میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ان افراد کو پولیس سٹیشن میں داخل ہوتے دیکھ کر اس وقت ایک سنتری نے ان پر فائرنگ شروع کر دی، تاہم انہوں نے نہ صرف سنتری پر جوابی فائرنگ کی بلکہ اپنی منصوبہ بندی کے مطابق سکھیرا برادری کے تین سگے بھائیوں کو اُن کی سزاؤں سے پہلے ہی موت کی نیند سلا دیا۔
اس واقعے کے بعد حکومت پنجاب نے فیصل آباد کے ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) اور سٹی پولیس آفیسر (سی پی او) کو برطرف کرتے ہوئے واقعے کا نوٹس لیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو مبینہ طور پر مارچ 2024 میں ایک ٹرانسفارمر کی تنصیب کی اجازت نہ دینے سے شروع ہوا، جس میں اب تک ایک باپ اور اس کے دو بیٹوں اور دیگر تین سگے بھائیوں سمیت چھ افراد قتل ہو چکے ہیں۔
دو برادریوں کے درمیان یہ لڑائی زمین پر ٹرانسفارمر کے لیے بچھائی جانے والی بجلی کی تاروں سے شروع ہوئی تھی۔ ایک طرف کھرل برادری تھی جو اپنی زمین پر ٹرانسفارمر لگانے پر مصر تھی تو دوسری جانب سکھیرا برادری نے اس کی مخالفت کی کیونکہ تاروں کا راستہ ان کی زمینوں سے گزرتا تھا۔
اس دوران کئی جھڑپوں میں کھرل برادری کے باپ اور دو بیٹوں کو مبینہ طور پر قتل کیا گیا۔ دس ماہ تک جاری رہنے والی یہ کشمکش تب انتقامی فائرنگ میں بدلی جب سکھیرا برادری کے افراد کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ کھرل برادری کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ اپنا بدلہ لیں جس کے لیے حوالات پر حملہ آور ہو کر حوالات میں موجود تین سگے بھائیوں اور ان کے ایک کزن کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
ترجمان فیصل آباد پولیس محمد طارق کی جانب سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ چھ جنوری 2025 کو صبح کے وقت فیصل آباد کے تاندلیانوالہ صدر پولیس سٹیشن پر ایک حملہ ہوا جس میں سکھیرا برادری کے تین بھائیوں عثمان، ناصر، اور بلال کو حوالات میں قتل کر دیا گیا جبکہ ان کے کزن آصف شدید زخمی ہوئے۔
یہ حملہ کھرل برادری کے ساتھ پرانی دشمنی سے منسلک بتایا گیا۔ پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے پولیس سٹیشن کی پچھلی دیوار پر سیڑھی لگا کر اندر داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔
ترجمان فیصل آباد پولیس کے مطابق اس واقعے کے بعد سی پی او کامران عادل فوری موقع پر پہنچے، جن کے ہمراہ دیگر سینیئر افسران اور پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔

تھانے پر حملے کا مقدمہ انسپکٹر محمد شفیق کی مدعیت میں پانچ ملزمان کے خلاف درج کیا گیا (فوٹو: حسام احمد)

پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقتولین بلال، عثمان، ناصر اور کزن آصف کو تھانہ سٹی تاندلیانوالہ پولیس نے قتل اور دہشت گردی کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا جن پر کھرل برادری کے افراد کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ ان افراد کو گذشتہ سال اکتوبر اور نومبر میں گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے دشمنی سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں تھانہ سٹی کے بجائے تھانہ صدر تاندلیانوالہ میں بند کیا تھا۔
اس واقعے میں ملزمان کی جانب سے حوالات پر اندھا دھند فائرنگ سے سکھیرا برادری کے تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ واقعے کے بعد ملزمان فرار ہوگئے تھے۔ مقتولین پر کھرل برادری کے افراد کو مارنے کا الزام تھا۔
تھانے پر حملے کا مقدمہ انسپکٹر محمد شفیق کی مدعیت میں پانچ ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔ سی پی او کامران عادل نے فرار ملزمان کی گرفتاری اور تحقیقات کے لیے ایس ایس پی انویسٹی گیشن اور ایس پی سی آئی اے کی سربراہی میں ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں نے 10 ملزمان کو حراست میں لیا جن میں تھانے پر حملہ آور ہونے والے اور مبینہ طور پر ان کے سہولت کار شامل تھے۔ دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بھی واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے آر پی او فیصل آباد سے رپورٹ طلب کی تھی۔
ترجمان پنجاب پولیس نے اس وقت ایک بیان میں کہا کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ بیان کے مطابق ڈی آئی جی انٹیلی جنس سپیشل برانچ فیصل علی راجا کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے، جبکہ اے آئی جی آپریشنز پنجاب زاہد نواز مروت اور اے آئی جی کمپلینٹس احسان اللہ چوہان کو بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔

کھرل برادری نے قتل کا الزام سکھیرا برادری کے افراد پر لگایا (فوٹو: پنجاب پولیس)

پولیس ذرائع کے مطابق انکوائری کمیٹی کے بعد 30 جنوری 2025 کو حکومت پنجاب نے فیصل آباد کے آر پی ڈاکٹر راجہ عابد اور سی پی او فیصل آباد کامران عادل کو تبدیل کر کے محکمہ سروسز رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔ 10 فروری 2025 کو صاحبزادہ بلال عمر کو سی پی او فیصل آباد جبکہ ذیشان اصغر کو آر پی او فیصل آباد تعینات کیا گیا۔
یہ لڑائی شروع کیسے ہوئی؟
فیصل آباد کے مقامی صحافی عثمان صادق کے مطابق سکھیرا برادری کی زمینوں پر ہائی وولٹیج بجلی کی تاریں گزرنی تھیں تاکہ وہاں ایک بڑے ٹرانسفارمر کی تنصیب کی جا سکے۔ اس مسئلے پر دونوں برادریوں کے مابین اختلاف پہلی بار مارچ 2024 میں شروع ہوا۔
عثمان صادق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تاندلیانوالہ میں ان دونوں برادریوں کی زمینیں پاس پاس ہیں۔ کھرل برادری اپنی زمینوں پر بڑا ٹرانسفارمر لگانا چاہتی تھی جس کی تاریں سکھیرا برادری کی زمینوں پر سے گزرنی تھیں لیکن سکھیرا برادری کے بڑوں نے ان کی زمینوں پر تاریں گزارنے کی اجازت نہیں دی۔ اس تنازعے کی وجہ سے دونوں کے مابین وقتاً فوقتاً لڑائیاں ہوتی رہی ہیں۔‘
’اسی دوران ان کی ایک بڑی لڑائی ہوئی جس میں کھرل برادری سے ایک باپ اور دو بیٹے قتل ہوئے۔ کھرل برادری نے اس کا الزام سکھیرا برادری کے افراد پر لگایا۔ اس کے بعد کھرل برادری کے افراد سکھیرا برادری کے گھر پر بدلہ لینے گئے۔ وہاں لڑائی ہوئی لیکن اس لڑائی میں سکھیرا برادری کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔‘
ان کے مطابق سکھیرا برادری نے کھرل برادری پر اسلحہ رکھنے کا الزام لگایا اور ان پر مقدمہ درج کر لیا۔ اس واقعے اور مقدمے کی تصدیق فیصل آباد پولیس نے اردو نیوز کو بھی کی۔

واقعے میں فیصل آباد پولیس کے اعلی افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی (فوٹو: سی سی ٹی وی پنجاب پولیس)

صحافی عثمان صادق کے بقول پولیس نے کھرل برادری کے چند لوگوں کو مقدمے کے بعد گرفتار کیا۔ اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’اب کھرل برادری کے لوگ ان کی ضمانت کرانے جا رہے تھے جہاں ان پر دوبارہ حملہ ہوا۔ ان کے دو مزید لوگ قتل ہوئے اور ایک راہگیر کو بھی گولی لگی۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے سکھیرا برادری کے تین بھائیوں اور ان کے ایک کزن کو پکڑا۔‘
اس کے بعد جب انہیں حوالات میں بند کیا گیا تو کھرل برادری نے اپنا بدلہ لینے کے لیے تھانے پر حملہ کر کے تین بھائیوں کو قتل کر دیا۔ عثمان صادق کا دعویٰ ہے کہ مبینہ طور پر اس حملے میں کھرل برادری کے ایک پولیس کانسٹیبل نے اپنی برادری کے ساتھ ساز باز کر کے سہولت کاری کی۔‘
اس پولیس سٹیشن میں ایک پولیس اہلکار کھرل برادری سے تھا جس نے مبینہ طور پر اس حملے میں معاونت فراہم کی۔ پولیس نے انہیں گرفتار بھی کیا، تاہم اس کی براہ راست تصدیق نہ ہوسکی۔
ترجمان فیصل آباد پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس واقعے میں فیصل آباد پولیس کے اعلی افسران کے خلاف بھی کارروائی ہوئی۔

 

شیئر: