سفید رنگ میں نکھری ہوئی عمارت، بحال کی گئی تختیاں اور صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھے گپ شپ کرتے لوگ، یہ منظر اب ججہ عباسیاں ریلوے سٹیشن کا نیا روپ ہے۔
اس ریلوے سٹین سے کبھی ٹرینیں گزرا کرتی تھیں مگر یہ سب اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اور کچھ عرصہ قبل تک یہ عمارت بھینسوں کے باڑے اور منشیات استعمال کرنے والوں کے اڈے میں تبدیل ہو چکی تھی۔
تاہم مقامی شہری جام ایوب نے سفید رنگ کی ان دیواروں میں روح پھونکنے کا عزم کیا اور یوں آج یہ ریلوے سٹیشن ایک چائے خانے میں تبدیل ہو چکا ہے۔
مزید پڑھیں
-
’مری گلاس ٹرین‘ کے روٹ پر کون کون سے سیاحتی مقامات آئیں گے؟Node ID: 885982
صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خانپور کے نواحی قصبے ججہ عباسیاں کا برطانوی دور کا تاریخی ریلوے سٹیشن ایک زمانے میں ریاست ِبہاولپور کی رونق کا مرکز ہوا کرتا تھا۔
سال 1908 میں تعمیر ہونے والی یہ عمارت گذشتہ کئی دہائیوں سے ویران پڑی تھی لیکن مقامی شہری جام ایوب کی کوششوں نے اسے ثقافتی ورثے کی بحالی کی ایک مثال بنا دیا ہے۔
اس عمارت میں اب چائے کے ساتھ ساتھ سنوکر اور کیرم جیسی سرگرمیاں بھی نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔ جام ایوب اس تاریخی ریلوے سٹیشن کے قریب رہتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا گھر اس ریلوے سٹیشن سے دو سو قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہماری زندگی اس سٹیشن میں ہی گزری ہے۔ سٹیشن میں دو کمروں کی چھتیں غائب ہیں۔ ایک ٹکٹ گھر بچا ہوا ہے۔ نشئی اس کی چھتیں بھی نکال رہے تھے۔ میں نے سوچا اگر یہ چھت بھی گر گئی تو اس سٹیشن کے آثار ختم ہو جائیں گے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’کچھ عرصہ قبل جب یہاں سے گزرے تو دیواروں پر گوبر کے اُپلے اور ٹوٹی چھتیں دیکھ کر بہت افسوس ہوا چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ورثے کو بچانا ہوگا۔ پھر ریلوے انتظامیہ سے رابطہ کر کے اس سٹیشن کی عمارت کو کرائے پر حاصل کیا۔‘
یہ سٹیشن تاریخی طور پر خانپور چاچڑاں ریلوے لائن کا اہم حصہ تھا جسے تقریباً 20 ویں صدی کے آخر میں بند کر دیا گیا تھا۔
جام ایوب بتاتے ہیں کہ یہاں 1994 یا 1992 تک ٹرینیں آیا کرتی تھیں، اس کے بعد اس سٹشین سے کوئی ٹرین نہیں گزری۔
’پھر اس کی پٹری اتر گئی۔ لوگ یہاں سے چیزیں نکالنے لگے۔ اس عمارت کے علاوہ اس سٹیشن کی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ اس لیے میں نے اسے محفوظ رکھنے اور ثقافتی تفریح کا ذریعہ بنانے کے لیے ریلوے انتظامیہ سے بات کی۔‘
جام کمال نے ریلوے سٹیشن کی دیواروں پر رنگ کروایا اور اس کی تختیوں کو اصل حالت میں محفوظ کیا۔ انہوں نے چارپائی، تکیے اور دیگر روایتی چیزیں رکھیں۔ وہ یہاں چائے بناتے ہیں اور رات دیر گئے تک محفلیں جمتی ہیں۔
جام کمال کے مطابق یہ صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ کئی لوگوں کا روزگار بھی لگ چکا ہے۔ عام طور پر لوگ موبائل فونز میں مصروف رہتے ہیں۔ اب ہماری تحصیل میں یہی ایک جگہ ہے جہاں تمام لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ سنوکر کھیلتے ہیں، لڈو سے لطف اٹھاتے ہیں اور چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔
ججہ عباسیاں ریلوے سٹیشن کی بحالی کا یہ کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ برطانوی طرزِ تعمیر کی حامل دو منزلہ عمارت کو سفید رنگ کیا گیا ہے، جبکہ اس کے دروازوں پر لگی تختیاں’مسافر خانہ‘، ’ٹکٹ گھر‘ اور ’ججہ عباسیاں 1908‘ اس کی بھولی بسری شان و شوکت کی یاد دلاتی ہیں۔
جام ایوب کے مطابق انہوں نے اس ریلوے سٹیشن کو چائے خانے میں تبدیل کرنے کے لیے اب تک 8 لاکھ روپے خرچ کر دیے ہیں اور اس کی تزئین و آرائش پر ایک ماہ کا عرصہ لگا۔

جام ایوب کی خواہش ہے کہ وہ اس جگہ کو مزید بہتر کریں اور اسے علاقے کے لیے ایک مثال بنائیں۔
’اب تک سٹیشن کے سامنے والے حصے کو تو مکمل طور پر بحال کر دیا گیا ہے لیکن مسافر خانے اور سٹیشن ماسٹر کے دفتر کی چھتیں جو نہیں رہی تھیں، ان پر کام ہو رہا ہے۔‘
علاقے کے معروف محقق اور سیاح ڈاکٹر عظیم شاہ بخاری نے ججہ عباسیاں کے اس ریلوے سٹیشن کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ سٹیشن خانپور سے چاچڑاں ریلوے لائن کا تیسرا اہم پڑاؤ تھا۔ یہ لائن گوادر کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن 1998 میں مسافر ٹرین بند ہونے کے بعد یہ پٹریاں ویران ہوگئیں۔‘
ڈاکٹر عظیم شاہ کے مطابق ججہ عباسیاں کا شمار ریاست بہاولپور کے ان چار قصبوں میں ہوتا تھا جہاں سے ریل گاڑیاں گزرا کرتی تھیں۔ ٹریک پر تیسرا سٹیشن خان پور سے 17 کلومیٹر دور ججہ عباسیاں کا ہے جو 1908 میں تعمیر کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر عظیم شاہ بتاتے ہیں کہ ججہ عباسیاں کی ایک وجہ شہرت یہاں موجود کھجوروں کے وہ باغات ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ محمد بن قاسم کے لشکر کی طرف سے پھینکی گئی کھجور کی گٹھلیوں سے وجود میں آئے اور پھر پھیلتے چلے گئے۔
’سندھ سے ملتان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے محمد بن قاسم کے لشکر نےچوں کہ اس جگہ قیام کیا تھا تو یہ بات درست خیال کی جا سکتی ہے۔ اس علاقے کی کھجور اب بھی بہت مشہور ہے۔ اسی طرح بادشاہ اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک بیربل کا تعلق بھی یہیں سے بتایا جاتا ہے لیکن کسی تاریخی کتاب میں اس کا حوالہ موجود نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ججہ عباسیاں ریلوے سٹیشن کی قسمت اس وقت بدلی جب جام ایوب نے اسے چائے خانے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور اب علاقے کے بچے بوڑھے یہاں آتے ہیں، چاٸے پیتے ہیں اور گپیں لگاتے ہیں۔‘
’خواہش ہے کہ ججہ عباسیاں کی طرح باقی متروک شدہ ریلوے سٹیشنوں کی قسمت میں بھی کوئی چاٸے خانہ، لاٸبریری یا عجاٸب گھر لکھا ہو۔‘